پاکستان کے سیاسی ماحول کا مزاج ہمیشہ ہی سے طوفانی رہا ہے۔ سب سے اہم کہانی جو گزشتہ چند دنوں میں سامنے آئی ہے وہ خود وزیر اعظم نے رواں ہفتے اتوار کی شب اسلام آباد میں بڑے جلسہ میں اپنی تقریر میں بیان کی اور اس کا تعلق انہیں ہٹانے کیلئے غیر ملکی دارالحکومتوں میں رچی جانے والی مبینہ سازش ہے۔ اس منصوبے کا ایک حصہ یہ ہے کہ صرف وزیراعظم ہی نہیں بلکہ پاکستان کو کسی بیرونی ملک سے خطرہ لاحق ہے۔ وزیراعظم نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے پاس پاکستان کو دھمکیاں دینے کے ثبوت موجود ہیں اور اس سلسلے میں ان کے پاس ایک خط (کی صورت تحریری ثبوت) موجود ہے لیکن اس کی عبارت (مندرجات) ظاہر نہیں کی گئی کیونکہ ایسا کرنے سے پاکستان کی خارجہ پالیسی یا خارجہ مفادات پر سمجھوتہ ہو گا۔ وزیر اعظم کی روس روانگی کے موقع پر خدشات کے حوالے سے کسی عالمی طاقت نے ایسی فیصلہ سازی سے جان چھڑانے کا سوچا ہو جو اُس کے مفادات سے متصادم ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ مسلم دنیا کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے لیاقت علی خان اور ایٹم بم اور مسلم امہ کا تصور لئے ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر پاکستان میں بہت سے سیاسی رہنماؤں کو پاکستان کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے مختلف سطحوں پر دباؤ اور بدتر حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اِس سلسلے میں اگر پاکستان کو کسی سے خطرہ ہے تو وہ بنیادی طور پر امریکہ ہی ہے جس کی پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے اور یہ بات بھی دنیا جانتی ہے کہ امریکہ ایک سے زیادہ مرتبہ پاکستان کو اپنے مفادات کیلئے استعمال کر چکا ہے۔ جہاں تک وزیراعظم کے خلاف کسی ’مبینہ غیر ملکی سازش‘ کا تعلق ہے تو یقینا اِس کے کئی پہلو اور یہ حقیقت اپنی جگہ زیرغور آنی چاہئے کہ موجودہ خارجہ پالیسی کی وجہ سے پاکستان سے کچھ ممالک ناراض ہوئے ہیں۔
پاکستان کی موجودہ خارجہ پالیسی اور اس سے متعلقہ مسائل کے حوالے سے کچھ دلچسپ حقائق ہیں۔ پہلا یہ کہ عمران خان کی خارجہ پالیسی بعض مغربی دارالحکومتوں میں مقبول نہیں ہے۔ خاص طور پر کشمیر اور بھارت‘ فلسطین اور یوکرین کے حوالے سے پاکستان کا مؤقف۔ دوسرا وزیر اعظم کی خارجہ پالیسی اصولی ہے اور پاکستان کیلئے مشکل لیکن درست فیصلے لینے کی مشق پر مبنی ہیں مثال کے طور پر یمن‘ شام‘ بوسنیا اور فلسطین کے بارے میں پاکستان کی خارجہ پالیسی واضح ہے۔ وزیر اعظم کے چھ مارچ کے بیان سے یہ سوال اُٹھا ہے کہ آیا پاکستان کو ایک غلام ملک کے طور پر دیکھا جاتا ہے‘ جس طرح سے یورپی یونین کے سفیروں نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ پاکستان کو یوکرین پر روس کی مذمت کرنی چاہئے اور یہ کہ یورپی یونین کو بھارت سے بھی یوکرین پر روسی حملے کی مذمت کرنا چاہئے تھی۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ بیان قومی حکمت عملی کے نقصان دہ (پالیسی ڈیزاسٹر) نہیں تھا اور اس سے یورپی یونین پاکستان تعلقات یا دو طرفہ تجارت پر منفی اثر پڑنے کا امکان نہیں تھا۔ یورپی یونین کی پریس ریلیز کے بارے میں وزیر اعظم کے بیان کے خلاف شور مبالغہ آرائی پر مبنی تھا۔ واضح طور پر‘ ہماری سیاست کے اندر بہت سے لوگوں کا ردعمل سفارت کاری یا خارجہ پالیسی کے بارے میں نہیں ہوتا بلکہ یہ ملکی سیاست کی وجہ سے ایک دوسرے کے بیانات کو دیکھتے ہیں۔ کچھ لوگ سوچیں گے کہ مندرجہ بالا حقائق سے یہ نتیجہ اخذ کرنا آسان ہو جاتا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے خلاف کوئی بین الاقوامی سازش ہو رہی ہے تاہم اس طرح کے دعوے کو ثابت کرنے کیلئے ثبوت کس حد تک موجود ہیں یہ آنے والا وقت بتائے گا کہ کیا غیر ملکی حکومتیں پاکستان کے داخلی سیاسی معاملات میں مداخلت کر رہی ہیں یا ایسا کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں اور کیا حالیہ پارلیمانی تنازعے کے درپردہ بھی کسی ملک کا سازشی کردار ہے؟ لیکن یہ ایک بات بھی شک و شبے سے بالاتر ہے وہ یہ ہے کہ وزیر اعظم پاکستان کی سوچ اور بیانیے سے بہت سی حکومتیں متفق نہیں ہیں۔ (مضمون نگار سینئر صحافی ہیں۔ بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: نسیم زہرا۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)