جنگ‘ ذرائع ابلاغ اور مغرب

افغانستان‘ شام‘ عراق اور یمن کی جنگوں کے بعد روس اور یوکرائن کا تنازع ایک بار پھر ’اس صدی کی جنگ‘ کے طور پر اُبھرا ہے لیکن یہ سابقہ تمام جنگوں سے مختلف ہے۔ حالیہ بحران میں مختلف مکاتب فکر کے متعدد متوازی نقطہ نظر ہیں‘ جو موجودہ صورتحال کی وضاحت کیلئے آپس میں ٹکرا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یورپ اتنے عرصے بعد ایک مہلک جنگ کا مرکز کیسے بن گیا یعنی دوسری عالمی جنگ کا خاتمہ ہونے کے بعد نئی جنگ کیسے شروع ہوئی؟ جواب ہے کہ مغربی میڈیا نے روس یوکرین تنازعے کو تعصب سے دیکھا اور نوبت جنگ تک جا پہنچی۔ اگرچہ سیاسی‘ اقتصادی یا تزویراتی مفادات پر مبنی کسی بھی ’خودمختار‘ ریاستوں پر حملہ جائز نہیں لیکن روس کے خلاف مغربی میڈیا کی نمائندگی کی سیاست اور یوکرین کے حق میں منافقانہ یورو سینٹرک تعصب کو ظاہر کرتی ہے جو کہ اس کے ذریعے پھیلائے گئے تسلط پسندانہ نظریات کو برقرار رکھنے کے حق میں ہے۔ دوسری طرف مغربی ممالک مثال کے طور پر امریکہ میں کریملن کے بڑھتے ہوئے عدم اعتماد پر بحث کرتے ہیں اور اِس بارے میں امریکہ کے معروف اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ نے سال دوہزاردس میں درج ذیل سطریں شائع کیں تھیں ”روس کے خفیہ ادارے (کے جی بی) کے سابق افسر ولادیمیر پوٹن نے روس کو نئی حکمت دی ہے۔ تاریخی دستاویزات اور واقعات یہ ہیں کہ 1991ء میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد تمام اقوام نے روس کیلئے اپنے دروازے دوبارہ بند کر دیئے۔
 قومی ٹیلی ویژن حکومت کے کنٹرول میں واپس چلا گیا ہے۔ بین الاقوامی تنظیموں (این جی اوز) کو روس سے باہر دھکیل دیا گیا ہے اور روس میں آزاد غیر منافع بخش گروپوں پر سختی کی گئی اُنہیں ہراساں کیا گیا اور دھمکیاں دی گئیں۔ روس بنیادی طور پر ایک جماعتی ریاست ہے جیسی کہ بیس سال پہلے تھی روس سے منسلک نمائندگی بند‘ حکومتی کنٹرول زیادہ‘ اور روس کے لئے ایک جماعتی ریاست جیسے حوالوں کا استعمال کرکے روس کو عالمی سطح پر ایک ایسے ملک کے طور پر پیش کیا گیا جہاں کی حکومت آمرانہ خصوصیات رکھتی ہے۔ ستائیس مارچ دوہزاربائیس کے روز ’واشنگٹن پوسٹ‘ نے صدر ولادیمیر پیوٹن کے بارے میں لکھا کہ ”پیوٹن نے برسوں سے اختلاف رائے کو ختم کیا ہے۔ آزاد میڈیا کو ختم کیا ہے اور حکومت کے خلاف ہر قسم کے احتجاج کو روکنے کی کوشش کی ہے۔“
 مغربی ذرائع ابلاغ ریاست کے تسلط پسند اصولوں کو بنانے اور دوبارہ پیش کرنے کیلئے خبروں میں ہیرا پھیری کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ روس کے معاملے میں مغربی منافقت اور مغربی ممالک و اِس کے اتحادیوں کے دوہرے معیارات سامنے آئے ہیں کیلی کوبیلا جو کہ این بی سی نیوز کی نمائندہ ہیں کہتی ہیں کہ ”صرف اسے دو ٹوک الفاظ میں کہوں یوکرائنی مہاجرین شام کے پناہ گزین نہیں ہیں۔ یہ ہمسایہ ملک یوکرین کے پناہ گزین ہیں۔ یہ سفید فام ہیں‘ وہ اہل مغرب کی رنگ و نسل سے قابل ذکر طور پر ملتے جلتے ہیں۔“ بی بی سی کے ایک انٹرویو میں یوکرین کے ڈپٹی چیف پراسیکیوٹر ڈیوڈ ساکواریلیڈزے نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ”یہ میرے لئے بہت جذباتی بات ہے کیونکہ میں نیلی آنکھوں اور سنہرے بالوں والے یورپی لوگوں کو قتل ہوتے دیکھ رہا ہوں۔“ اِن چند مثالوں سے واضح ہوا کہ ذرائع ابلاغ نسلی تعصب کو ہوا دے رہے ہیں اور ’نسل پرستانہ مؤقف‘ پیش کیا جا رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اِس پوری بات چیت (انٹرویو) کے دوران انہیں چیلنج نہیں کیا گیا۔ آئی ٹی وی نیوز کے ایک نمائندے نے ایسے ہی الفاظ بیان کئے جو بیرون ملک انسانی زندگیوں کے بارے میں مغربی میڈیا کے تاثرات کا خلاصہ کرتے ہیں: ”ناقابل تصور ہے کہ یوکرائن ترقی پذیر‘ تیسری دنیا کی قوم نہیں ہے بلکہ یہ یورپ (کا حصہ) ہے!“ اس منطق سے‘ ’ناقابل تصور‘ چیزیں صرف تیسری دنیا میں ہوتی ہیں مغرب میں نہیں! ذرائع ابلاغ کی یہ منافقت بائیں بازو کے مخالفوں اور مفکرین کی تنقید کے بغیر نہیں ہے۔
 مثال کے طور پر عرب اور مشرق وسطیٰ کے صحافیوں کی ایسوسی ایشن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس طرح کے غلط بیانیے تیار کرنا یورپ اور شمالی امریکہ سے باہر تنازعات کو پھیلانا ہے۔ یہ دعویٰ کرنا کہ یورپ جنگ کیلئے بہت مہذب ہے نہ صرف نسلی طور پر متعصب ہے بلکہ یہ نتیجہئ خیال بغیر غور و فکر بھی ہے۔ اس لئے کہ مغرب دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد دنیا میں ہونے والی بہت سی جنگوں کا ذمہ دار ہے۔ خاص طور پر مشرق وسطیٰ میں۔ کوئی ریاست دنیا کے دیگر حصوں میں لاتعداد زندگیوں کو تباہ کرنے کی ذمہ دار ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی جانوں اور عالمی امن کی چیمپئن ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتی۔اسرائیل فلسطین تنازعہ ہو۔ نائن الیون کے حملے اور افغانستان پر امریکی حملے‘ عراقی حملے‘ ایران میں دوہزارنو کے متنازعہ انتخابات‘ دوہزارگیارہ میں مغرب کی طرف سے لیبیا کو عدم استحکام سے دوچار کرنا ہو یا دوہزارگیارہ سے شام کا بحران‘ مغربی ذرائع ابلاغ کی بالادستی ہے اور یہ دنیا پر اپنا مؤقف (سوچ) مسلط کرتے ہیں اور امریکہ کی سامراجی جنگوں کیلئے جھوٹے یا گمراہ کن بہانوں کو جائز قرار دیتے ہیں جو سراسر صحافتی اخلاقیات کے منافی ہے لیکن امریکہ اور مغربی اشرافیہ ذرائع ابلاغ کو اپنے سٹریٹجک مفادات حاصل کرنے کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ارسیم طارق اور ایمن بخاری۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)