خیبرپختونخوا بلدیاتی انتخابات

 اکتیس مارچ کے روز خیبرپختونخوا کے اٹھارہ اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے غیر سرکاری غیر حتمی نتائج کے مطابق تحریک انصاف سرفہرست جماعت بن کر سامنے آئی ہے۔ تحصیل میئر یا چیئرمین کی کل پینسٹھ نشستوں میں سے تحریک نے تیس پر کامیابی حاصل کی ہے۔ دوسری جانب جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن) مسلم لیگ نواز‘ عوامی نیشنل پارٹی‘ پیپلزپارٹی اور آزاد امیدواروں نے بقیہ پینتیس نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔ جمعیت نے نو نشستیں حاصل کی ہیں۔ آزاد امیدواروں نے نو‘ مسلم لیگ نواز نے پانچ‘ جماعت اسلامی نے پانچ‘ اے این پی نے دو‘ پی پی پی دو‘ قومی وطن پارٹی نے ایک‘ ایم ڈبلیو ایم نے ایک اور آر ایچ کیو نے ایک نشست حاصل کی ہے۔ جن اضلاع میں پولنگ ہوئی ان میں ایبٹ آباد‘ مانسہرہ‘ بٹ گرام‘ تورغر‘ کوہستان اپر‘ کوہستان لوئر‘ کولائی پلاس‘ سوات‘ مالاکنڈ‘ شانگلہ‘ لوئر اور اپر دیر‘ اپر اور لوئر چترال‘ کرم اورکزئی و شمالی اور جنوبی وزیرستان شامل ہیں۔

اسلام آباد اور پنجاب میں ہونے والی حالیہ سیاسی پیشرفت نے خیبرپختونخوا کے انتخابی نتائج کو متاثر کیا کیونکہ لوگوں کی زیادہ توجہ قومی اسمبلی میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد اور وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے استعفیٰ کے بعد پنجاب میں نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب پر مرکوز تھی۔ مذکورہ انتخابات کے نتائج سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی اب بھی خیبرپختونخوا میں مقبول ہے اور اپنے مخالفین کیلئے سنگین چیلنج بن سکتی ہے۔ اِس جیت  نے ایک ایسے مایوس کن وقت میں تحریک کے حوصلے بلند کئے ہیں جبکہ ایسا لگتا ہے کہ یہ جیت دیگر ملکی سیاست سے قطع نظر تحریک کو متحد رکھنے میں بہت آگے جائے گی۔ دسمبر دوہزاراکیس میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں شکست کے بعد‘ تحریک کی زیرقیادت خیبرپختونخوا اور وفاقی حکومتوں نے بہتر حکمت عملی بنائی اور عمران خان نے خود انتخابی مہم کی قیادت کی۔ یہ تحریک کیلئے بہت  اہم الیکشن تھا کیونکہ اس شکست سے تحریک کے اندر بھی انحراف کا دروازہ کھل سکتا تھا۔ تحریک کی قیادت اس الیکشن کی اہمیت کو جانتی تھی

اور یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے عدم اعتماد کے ووٹ کے خطرے کا سامنا کرنے کے باوجود مختلف اضلاع میں عوامی جلسوں کا انعقاد کیا۔ تحریک کی اِس فتح میں مختلف عوامل نے کردار ادا کیا۔ انتخابات کے پہلے مرحلے میں شکست کے فوراً بعد تحریک کی قیادت نے صورتحال کا سنجیدگی سے تجزیہ کیا اور دوسرے مرحلے کیلئے اپنی حکمت عملی تبدیل کی۔ تجربہ کار سیاستدان پرویز خٹک کو پی ٹی آئی کا صوبائی صدر بنایا گیا اور انہوں نے بلدیاتی انتخابی مہم کی قیادت کی۔ یہ تاثر کسی حد تک درست ہے کہ تحریک کی جیت میں صوبائی حکومت کی کارکردگی کا بڑا عمل دخل رہا لیکن یہ اس فتح کا واحد عنصر نہیں ہے۔ اپنی اپنی جماعتوں کی انتخابی مہم میں اہم اپوزیشن رہنماؤں کی عدم موجودگی نے بھی تحریک کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا۔

مسلم لیگ نواز اور جے یو آئی ایف کی قیادت نے دوسرے مرحلے کی بلدیاتی مہم کے دوران ایک بھی عوامی جلسہ منعقد نہیں کیا۔ وہ اسلام آباد میں وزیراعظم کو ہٹانے کیلئے قومی اسمبلی میں 172ارکان کی حمایت حاصل کرنے کے مشن کو پورا کرنے میں مصروف تھے۔ تحریک نے ماضی میں جے آئی اور پی پی پی کے زیر اثر اضلاع میں بھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ ضلع لوئر دیر کی سات میں سے پانچ تحصیلوں پر تحریک انصاف نے کامیابی حاصل کی۔ مجموعی طور پر تحریک نے مالاکنڈ ڈویژن میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔تحریک نے دوہزاراٹھارہ کے عام انتخابات میں سوات‘ مالاکنڈ‘ لوئر و اپر دیر کے اضلاع میں بھی کلین سویپ کیا اور اب اس نے کامیابی سے ان اضلاع پر اپنی گرفت برقرار رکھی ہوئی ہے۔