ممالک کے درمیان اپنی اپنی کرنسی کی بالادستی کیلئے جنگ تاریخی و روایتی پس منظر رکھتی ہے۔ اقتدار کے عروج پر فرانس نے 1860ء کی دہائی میں جرمنی کو چھوڑ کر اپنی الگ حیثیت و شناخت ثابت کرنے کی کوشش کی۔ پھر نازی جرمنی اور سامراجی جاپان نے بیسویں صدی میں اپنی کرنسیوں میں توسیع کرکے ڈھانچہ جاتی طاقت حاصل کی اور دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد امریکہ نے بھی اِسی حکمت ِعملی کی پیروی کی۔ ایک اور شعبہ جس میں بیجنگ نے کچھ پیشرفت کی ہے جس کا تعلق سرحد پار ادائیگی کے نظام سے ہے جو بین الاقوامی مالی لین دین میں اپنے شرکاء کیلئے کلیئرنگ اور سیٹلمنٹ خدمات پیش کرتا ہے۔ اس وقت سوئفٹ نامی مالیاتی ڈھانچہ جاتی طاقت کی مکمل اجارہ داری قائم ہے جسے بعض اوقات بڑی طاقتوں نے ایران‘ شمالی کوریا اور روس جیسے ممالک کو وقتا ًفوقتا ًمجبور کرنے کیلئے تعینات کیا ہے۔ سوسائٹی فار ورلڈ وائڈ انٹر بینک فنانشل ٹیلی کمیونیکیشن کے نام سے مشہور اس تنظیم کی بنیاد 1973ء میں رکھی گئی تھی
جب پندرہ مختلف ممالک کے 239 بینکوں نے پیغام رسانی کے متحد معیارات بنائے تھے۔ یہ ایک پیغام رسانی پروگرام (نیٹ ورک) ہے جو سرحد پار مالی ادائیگیوں کو ممکن بناتا ہے اور اس طرح عالمی مالیات کا ذیلی ڈھانچہ تشکیل دیتا ہے۔ تنظیم کے مطابق سوئفٹ 1983ء میں پہلے مرکزی بینکوں کے کنکشن کے ساتھ نوڈل فنانشل میسجنگ سسٹم بن گیا۔ آج سوئفٹ 200 سے زائد ممالک اور علاقوں اور دس ہزار سے زائد مالیاتی اداروں پر محیط ہے جس سے روزانہ ڈیڑھ کروڑ پیغامات کا تبادلہ ہوتا ہے۔ یہ ایک اہم مالیاتی بنیادی ڈھانچہ ہے جس کی مدد سے بین الاقوامی ادائیگیاں ممکن ہوتی ہیں۔ چین کا نظام موجودہ مالیاتی ڈھانچے (سوئفٹ) کا مقابلہ کرنے کیلئے نہیں بلکہ ’اس کی تکمیل‘ جیسا تصور ہے جسے چینی حکام نے برقرار رکھا ہوا ہے۔ چین سرحد پار انٹر بینک ادائیگی نظام (سی آئی پی ایس) لے کر آیا ہے۔ سی آئی پی ایس کے مطابق 103 ممالک میں تقریبا ً 1280مالیاتی ادارے اس نظام سے جڑے ہوئے ہیں جن میں جاپان کے تیس بینک‘ روس کے 23 بینک اور چین کی بی آر آئی سرمایہ کاری کے تحت یوآن وصول کرنے والے افریقی ممالک کے 31 بینک شامل ہیں۔ پیپلز بینک آف چائنا (پی بی او سی) کی حمایت سے بیجنگ نے اپنی کرنسی کو بین الاقوامی بنانے کیلئے دوہزارپندرہ میں سی آئی پی ایس کا آغاز کیا تھا۔ یہ ایک ادائیگی کا نظام ہے جو کلیئرنگ اور سیٹلمنٹ خدمات پیش کرتا ہے
اور یہ متعدد غیر ملکی بینکوں کو بھی اپنے اہم حصص یافتگان کے طور پر شمار کرتا ہے۔ اگرچہ سوئفٹ کے قریب سی آئی پی ایس نے تقریبا اَسی ٹریلین یوآن (12کھرب ڈالر) پر کاروائی کی۔ 103ممالک اور علاقوں میں تقریبا 1280 مالیاتی ادارے سال 2021ء میں اس نظام سے منسلک ہوئے تھے۔ اِن حقائق کے پیش نظر اگرچہ چین کوششیں کر رہا ہے اور اس نے اپنی کرنسی کی بین الاقوامیت کے لئے عملی اقدامات کئے ہیں لیکن وہ اس وقت عالمی سطح پر قابل قدر کرنسی کے طور پر ڈالر کو اپنی پوزیشن سے ہٹانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ سوئفٹ کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ آر ایم بی اس وقت تمام بین الاقوامی ادائیگیوں کا صرف ایک سے دو فیصد کے درمیان ہے۔ شاید جیسے جیسے بی آر آئی منصوبوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو عملی جامہ پہنایا جاتا ہے‘ اس سے چینی کرنسی کو مزید بین الاقوامی شکل ملے گی۔
مثال کے طور پر ’بیلٹ اینڈ روڈ انشی ایٹو (بی آر آئی)‘ کے منصوبوں میں ”ریاستی کونسل کے سرکاری ملکیتی اثاثوں کی نگرانی اور انتظامیہ کمیشن کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ دوہزاراُنیس کے اوائل میں مرکزی ایس او ایز نے پہلے سے جاری یا پائپ لائن میں بنیادی ڈھانچے کے پچاس فیصد منصوبوں کو شروع کیا‘ جس میں کنٹریکٹ ویلیو کا ستر فیصد سے زیادہ حصہ بتیس سو سے زائد منصوبوں میں پھیلا ہوا تھا۔ اعداد و شمار کے مطابق دوہزاراُنیس میں ایک سو پچاسی ممالک اور علاقوں میں مرکزی حکومت کے زیر انتظام ایس او ایز کے دس ہزار سے زیادہ بیرون ملک یونٹ تھے اور اسی عرصے میں اس کے غیر ملکی اثاثے آر ایم بی سات کھرب یوآن (ایک کھرب ڈالر) سے زیادہ رہے
اور سالانہ آپریٹنگ آمدنی اور منافع بالترتیب چار اعشاریہ سات کھرب اور آر ایم بی ایک سو چھ اعشاریہ چار ارب آر ایم بی تک پہنچ گیا۔ ان چند اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح چینی ایس او ایز بی آر آئی کے تحت متعدد ممالک میں کام کر رہے ہیں اور وہ مستقبل میں چینی کرنسی کی بین الاقوامیت کے مقصد کو کیسے حاصل کرسکتے ہیں۔