اعلیٰ تعلیم کی بحالی

پاکستان میں جب ”ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ اِی سی)“ نامی اعلیٰ تعلیم کی ترقی کیلئے ادارہ قائم ہوا اور راقم الحروف کو سال دوہزاردو میں اس کا بانی چیئرمین مقرر کیا گیا۔ اُس وقت ٹائمز ہائر ایجوکیشن (برطانیہ) کی درجہ بندی کے مطابق دنیا کی سرفہرست پانچ سو جامعات میں کوئی ایک بھی پاکستانی یونیورسٹی شامل نہیں تھی۔ کمیشن نے کام شروع کیا اور چھ سال کے مختصر عرصے میں پاکستان کی چار جامعات دنیا کی ٹاپ (قابل ذکر) تین سو‘ چارسو اور پانچ سو یونیورسٹیز میں شامل ہو گئیں۔ ان میں نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (این یو ایس ٹی‘ اسلام آباد) اور یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی (یو ای ٹی‘ لاہور) شامل تھیں۔ ایسا اِس لئے ہوا کیونکہ بہت سی احتیاط سے منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ پالیسیوں اور معیار کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات کئے گئے اور تعلیم و تحقیق کے معیار پر توجہ مرکوز کی گئی۔ اتنے کم وقت میں اس طرح کی قابل ذکر پیش رفت دنیا کی تاریخ میں بے مثال ہے اور ہر جگہ اعلی تعلیم کے ماہرین نے پاکستانی جامعات کی بہتری کو سراہا ہے۔ پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی نظام کا غیر جانبدارانہ بیرونی جائزہ سال دوہزارآٹھ میں اقوام متحدہ کے کمیشن برائے سائنس و ٹیکنالوجی اور ترقی کے چیئرمین آسٹریا کے پروفیسر مائیکل روڈے نے کیا تھا۔ انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ”کسی بھی دوسرے ملک میں اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں گزشتہ چھ برس کے دوران پاکستان جیسی شاندار اور مثبت پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔“ دنیا کی معروف تنظیم تھامسن رائٹرز جو ویب آف سائنس اور بین الاقوامی حوالہ جات کے اعداد و شمار کی اشاعت سے وابستہ رہی ہے‘ نے پاکستان سے تحقیقی اشاعتوں کے معیار کا موازنہ برازیل‘ روس‘ بھارت اور چین سے کیا اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ پاکستان سے تحقیقی مضامین میں اضافے کی شرح مذکورہ ممالک سے زیادہ ہے۔ تاہم راقم الحروف مستعفی ہونے اور ہائر ایجوکیشن کمیشن چھوڑنے کے بعد ایچ ای سی کے آگے بڑھنے کی رفتار جو چھ برس پہلے مقرر کی گئی تھی جاری نہیں رکھی جا سکی اور یوں جامعات کی عالمی درجہ بندی کم ہونے لگی۔ افسوس سے لکھنا پڑ رہا ہے کہ آج ٹائمز ہائر ایجوکیشن (برطانیہ) کی درجہ بندی یعنی ”ٹاپ 500“ میں پاکستان کی کوئی بھی یونیورسٹی شامل نہیں ہے۔’ایچ ای سی‘ کے پہلے عشرے (ابتدائی دس برس) میں ہم نے جن اہم چیلنجوں سے نمٹا ان میں اعلیٰ تعلیم تک رسائی میں اضافہ‘ معیار کی بہتری‘ سماجی و اقتصادی ترقی کیلئے درکار متعلقہ تعلیم اور تحقیق‘ اختراع اور صنعت کاری پر توجہ مرکوز کرنا شامل تھا۔ تب اعلیٰ تعلیمی اداروں کا معیار و کارکردگی بہتر بنانے کیلئے بہت سے اہم اقدامات کئے گئے۔ ان میں سب سے اہم اعلی معیار کی فیکلٹی کی ترقی تھی۔ ہمارے ہزاروں ہونہار طلبہ کو پی ایچ ڈی کی سطح پر بیرون ملک اعلیٰ یونیورسٹیوں میں تربیت دی گئی اور نئے متعارف کرائے گئے مدت ٹریک سسٹم اور لبرل ریسرچ فنڈز کے تحت زیادہ تنخواہوں والی ملازمتوں کے ذریعے پاکستان آنے کی جانب راغب کیا گیا۔ تعلیم کو قومی ضروریات اور بین الاقوامی مطالبات سے متعلق بنانے کیلئے دوہزاردو سے دوہزارآٹھ کے درمیان چھ سالہ مدت میں اکیڈمیا اور صنعت و زراعت کے ماہرین کی مشاورت سے تمام نصاب پر تین بار نظر ثانی کی گئی۔ جدت طرازی اور انٹرپرینیورشپ کو فروغ دینے کیلئے بہت سی یونیورسٹیوں میں ٹیکنالوجی پارک قائم کئے گئے اور یونیورسٹی صنعت کے مشترکہ منصوبوں کیلئے خصوصی پروگرام شروع کئے گئے۔ ایک بہت بڑی ڈیجیٹل لائبریری قائم کی گئی تھی جو یونیورسٹیاں تیز رفتار انٹرنیٹ سے جڑی ہوئی تھیں‘ اُنہوں نے ڈیجیٹل لائبریری سے استفادہ کیا۔ خلأ میں ایک سیٹلائٹ (پاک سیٹ ون) بھیجا گیا جس کا ایک حصہ تعلیمی پروگراموں کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ ملک بھر کے کمپیوٹر سائنس کے تعلیمی اداروں میں انڈومنٹ فنڈز فراہم کروائے گئے۔ اِس شعبے میں سرمایہ کاری اس لئے ممکن ہوئی کیونکہ میں سابق صدر پرویز مشرف کو سائنس اور اعلیٰ تعلیم میں بھاری سرمایہ کاری پر آمادہ کرنے میں کامیاب رہا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے ترقیاتی بجٹ میں چھ ہزار فیصد اضافہ ہوا اور اعلیٰ تعلیم کے ترقیاتی بجٹ میں ساڑھے تین ہزار فیصد اضافہ کیا گیا لیکن اگر ہم گزشتہ تین سال کا تجزیہ کریں تو پاکستان میں اعلی تعلیم کا شعبہ افراتفری کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ اب ٹریک پر واپس آنے کا وقت آگیا ہے۔ سب سے اہم پروگرام جس کو بحال کرنے کی ضرورت ہے وہ فیکلٹی (تدریسی عملے) کی ترقی ہے۔ اس وقت طلبہ کے ساتھ پی ایچ ڈی لیول فیکلٹی کا تناسب تقریبا 100:1ہے جبکہ یہ 20:1 ہونا چاہئے لہٰذا ہمیں اپنی جامعات میں پی ایچ ڈی ڈگریوں کے ساتھ کم از کم پچاس ہزار اضافی فیکلٹی ممبران کو شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لئے ہمارے ہونہار نوجوانوں اور خواتین کی شناخت اور انہیں تربیت کیلئے بیرون ملک بھیجنے کیلئے ایک بڑے پیمانے پر پروگرام شروع کرنے کی بھی ضرورت ہے‘ سال دو ہزارپانچ میں متعارف کرایا گیا مدتی ٹریک سسٹم تدریسی عملے کی تقرریوں کا معاہدہ جاتی نظام ہے جس کے ذریعے مدت ملازمت کی منظوری سے قبل غیر ملکی ماہرین کی چھ آزادانہ تشخیصات ہوتی ہیں۔ ہر تین سطحوں پر دو اسسٹنٹ‘ ایسوسی ایٹ اور مکمل پروفیسر ہوتے ہیں تاہم اس پر خاطرخواہ عمل درآمد نہیں کیا گیا اور اس وقت ہماری یونیورسٹیوں میں دو نظام موجود ہیں جو انتشار اور عدم اطمینان کا سبب بنتے ہیں۔ اس مسئلے کو مناسب طریقے سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک اور بڑا مسئلہ ہمارے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں انڈر گریجویٹ تعلیم کا معیار ہے جبکہ فیکلٹی کا معیار ناقص ہے۔ یہاں تک کہ اچھی یونیورسٹیوں سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے والے فیکلٹی ممبران کو بھی اکثر بنیادی باتوں پر ناقص کمانڈ حاصل ہوتی ہے اور وہ طلبہ کو علم منتقل کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ جب تک فیکلٹی ممبران میں علم کی بنیادی خامیوں کو مناسب طریقے سے حل نہیں کیا جاتا تب تک کسی کے پاس معیاری تحقیقی ادارے نہیں ہو سکتے۔ گزشتہ تین برس کے دوران پرچم بردار تحقیقی معاونت پروگرام نیشنل ریسرچ پروگرام فار یونیورسٹیز (این آر پی یو) کو ختم کر دیا گیا اور تقریبا چار ہزار زیر التوا درخواستوں کے مقابلے میں صرف نوے کے قریب پراجیکٹوں کو مالی امداد فراہم کی گئی حالانکہ بھاری فنڈز دستیاب تھے۔ اس سے یونیورسٹیوں میں تحقیق کو تباہی کا سامنا کرنا پڑا‘ خاص طور پر نوجوان فیکلٹی ممبران نے ملک چھوڑنے کا انتخاب کیا۔ اس پروگرام کو مکمل طور پر بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہونہار نوجوانوں اور خواتین کی تربیت میں نجی شعبے کا بہت اہم کردار ہے۔ دوہزارچار میں راقم الحروف کی تجویز پر ہی حکومت نے نجی شعبے کی غیر منافع بخش یونیورسٹیوں میں بڑے پیمانے پر منصوبوں کو فنڈ دینے پر اتفاق کیا تھا اور ایل او ایم ایس اس طرح کے سرکاری ترقیاتی منصوبے کا پہلا فائدہ اٹھانے والا تھا۔ بدقسمتی سے اس پالیسی کو بند کر دیا گیا اور اسے بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ اب پاکستان میں متعدد غیر ملکی انجینئرنگ یونیورسٹیاں قائم کی جا رہی ہیں جن کی بڑی تعداد آسٹریا اور چین کے تعاون سے قائم ہوئی ہیں۔ ان میں سے پہلی مثال ہری پور ہزارہ میں قائم جامعہ ہے جو سوفیصدی پی ایچ ڈی سطح کی فیکلٹی کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ ایک یونیورسٹی سیالکوٹ میں زیر تعمیر ہے۔ ان یونیورسٹیوں کا مرکز ٹیکنالوجی پارک ہے جو صنعت کیلئے ہائی ٹیک مصنوعات تیار کرنے کیلئے وقف کیا گیا ہے تاکہ قومی برآمدات میں تیزی سے اضافہ کیا جا سکے۔ ایسی اعلیٰ معیار کی مزید جامعات کا ایک نیٹ ورک قائم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان مضبوط ٹیکنالوجی کی بنیاد پائیدار ترقی کر سکے۔ اِسی سے ملک کے مستقبل کا تعین بھی ممکن ہوگا۔ (مضمون نگار سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کیلئے وزیراعظم کی ’نیشنل ٹاسک فورس‘ کے سربراہ‘ سابق وفاقی وزیر اور ہائر اِیجوکیشن کمیشن کے بانی و سابق چیئرمین ہیں۔
(بشکریہ: دی نیوز۔ ترجمہ: ابواَلحسن اِمام)