اس وقت سب سے پہلی ضرورت ایسے تعلیمی نظام کی ہے جس میں خواندگی کی غربت کم یا ختم کی جائے۔ متعدد تجربات سے معلوم ہوا ہے کہ ایک سے دس سال کے بچے اُردو یا انگریزی زبان کی سادہ سی عبارت (متن) پڑھنے کے قابل بھی نہیں ہیں۔ پاکستان کی 75 سے 79 فیصد آبادی ایسی ہے جو ”خواندگی کی غربت“ کا شکار ہے۔ دوسری ضرورت وفاقی وزارت تعلیم جس کا سرکاری نام ”منسٹری آف فیڈرل ایجوکیشن اینڈ پروفیشنل ٹریننگ (MOFEPT)“ ہے کی جانب سے خواندگی کی غربت ختم کرنے کیلئے قومی حکمت عملی وضع کی گئی ہے تاہم اِس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا ہے اور یہ پروگرام ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے۔ جو بھی حکومت آئے اس پروگرام پر عمل درآمد میں تیزی لا سکتی ہے۔ وفاقی حکومت نے ’P-15‘ کے نام سے ایک حکمت عملی بنائی تھی جس کے تحت 15 جامعات (یونیورسٹیز) کو جدید بنانے میں مدد دینا ہے۔ یہ منصوبہ ہر لحاظ سے اہم‘ وقت کی ضرورت اور ایک مفید تجربہ ثابت ہوسکتا ہے جس سے متعدد یونیورسٹیوں کو اپ گریڈ کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ اس پر سوچ سمجھ کر عمل کیا جائے
تاہم اندیشہ یہ ہے کہ یونیورسٹیوں کو حکومت کی طرف سے ملنے والی مالی امداد پر ہی توجہ مرکوز رکھی جائے گی اور اِس حکمت عملی کے خاطرخواہ نتائج یا فوائد حاصل نہیں ہوں گے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ حکومت ”کامیاب جوان پروگرام“ میں توسیع کرے۔ نیشنل ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ٹریننگ کمیشن (این اے وی ٹی ٹی سی) نے حال ہی میں ایک منصوبہ (پی سی ون) پیش کیا ہے جس کے تحت اگلے تین سال کے دوران دس لاکھ نوجوانوں کی تربیت دی جائے اور اِس تربیت پر لاگت کا ابتدائی تخمینہ جو کہ پینتالیس ارب روپے تھا اِسے بڑھا کر ساٹھ ارب روپے کر دیا گیا لیکن ’این اے وی ٹی ٹی سی‘ گزشتہ تین سال میں صرف پانچ ارب روپے خرچ کر سکی۔ پاکستان میں خواندگی کے ساتھ ہنر مندی کی تربیت کے پروگراموں کی اشد ضرورت ہے اور اِس سلسلے میں اگرچہ مالی وسائل مختص کر دیئے گئے ہیں لیکن اِن سے خاطرخواہ فائدہ نہیں اُٹھایا جا رہا۔ یہ امر بھی ذہن نشین رہے کہ ہمیں صرف سرکاری خزانے سے اخراجات میں اضافہ نہیں بلکہ نتائج کی بھی ضرورت ہے اور کسی بھی پروگرام کے نتائج بارے آزاد ذرائع سے کارکردگی کا احتساب ہونا چاہئے۔
مثال کے طور پر کامیاب جوان پروگرام کی گزشتہ تین سال کی کارکردگی کا جائزہ کسی حکومتی ادارے سے نہیں بلکہ آزاد ذرائع سے لینا چاہئے اور اِس بات کو گہرائی سے دیکھنا چاہئے کہ کامیاب نوجوان پروگرام سے نوجوانوں کو حقیقت میں کتنا فائدہ ہوا اور کیا وہ اِس پروگرام (حکمت عملی) کی وجہ سے برسرروزگار ہوئے یا اُنہیں روزگار تلاش کرنے یا روزگار پیدا کرنے میں مدد ملی۔ حکومتی منصوبوں پر ہمیشہ رازداری کا عنصر غالب رہتا ہے اور جب تک اِس روایتی طرزعمل کو تبدیل نہیں کیا جائے گا اُس وقت تک کتنی ہی اچھی اور بہتر منصوبہ بندیاں (پی سی ون) ترتیب دے دیئے جائیں لیکن اِن کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔فیصلہ سازوں کو سمجھنا ہوگا کہ اساتذہ کی بھرتی کا تعلیم کے معیار پر براہ راست اور بڑا اثر پڑتا ہے۔ جس طرح سے انہیں بھرتی کیا جاتا ہے اس نے درحقیقت تعلیمی حکمرانی کو متاثر کیا ہے‘ چاہے یہ اساتذہ جزوقتی (کنٹریکٹ پر) ہوں یا مستقل‘ انہیں بھرتی کرتے ہوئے اہلیت کے معیار پر سختی سے عمل درآمد ہونا چاہئے اور یہ اہلیت کا معیار لچکدار بھی نہیں ہونا چاہئے کہ کوئی وزیر یا مشیر اساتذہ کی بھرتی میں اپنے من پسند افراد کو شامل کر سکے۔ تیسری اور آخری ضرورت یہ ہے کہ عبوری حکومت نئے تعلیمی سال کیلئے نئی کتابوں کی تقسیم سے کرتے ہوئے ماضی کی غلطیوں کو نہ دہرائے۔
سنگل نیشنل کریکولم (ایس این سی) کو اس کی موجودہ شکل میں فوری طور پر روکنا ہوگا۔ حکومت نصاب بنا کر پیش کر دے اور اگر یہ نصاب معیار میں بلند یعنی اچھا ہوگا تو نجی تعلیمی ادارے ازخود اِسے اپناتے چلے جائیں گے اور یوں رضاکارانہ طور پر یکساں نصاب لاگو ہو جائے گا لیکن اگر رضاکارانہ طور پر یکساں نصاب لاگو کرنے کی بجائے زبردستی کی گئی تو اِس کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔ سرکاری تعلیمی اداروں کے نصاب اور اس کے مواد پر باقاعدگی سے نظر ثانی ہونی چاہئے جس کیلئے متعلقہ ماہرین تعلیم کی باقاعدہ‘ تکنیکی مشق کا پابندی سے اطلاق ہو۔ اٹھاریویں ترمیم کے بعد صوبے رضاکارانہ طور پر نصاب کی ترقی و تشکیل کا کام کر سکتے ہیں لیکن اگر مرکز کی جانب سے اُنہیں ایسا کرنے کی اجازت دی جائے۔ اِس سلسلے میں قومی نصاب کونسل (این سی سی) کو یہ بھی ہدایت کی جاسکتی ہے
کہ وہ اپنے بنیادی مینڈیٹ پر توجہ مرکوز کرے۔ سیکھنے کے نتائج اور اساتذہ کے تربیتی پروگراموں اور متعلقہ مواد کو ترتیب دیا جائے اور نصابی کتابیں تیار کرنے یا خریدنے کے کاروبار جیسی سطح سے بلند ہو کر سوچا جائے۔ پاکستان کو نئی یونیورسٹیوں کے قیام کی حوصلہ شکنی کرنی چاہئے کیونکہ ایک ایسے وقت میں جب بہت سی سرکاری یونیورسٹیاں بمشکل اپنے اخراجات پورے کرنے کے قابل ہیں‘ نئی یونیورسٹیوں کے قیام پر سختی سے پابندی ہونی چاہئے کیونکہ جامعات کیلئے بہت زیادہ وسائل کی ضرورت ہوتی ہے آخری بات یہ ہے کہ آنے والی حکومت کو ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کی اصلاح کرنی چاہئے۔ مذکورہ کمیشن کو چلانے کا طریقہ کار خاطر خواہ نتائج دینے میں ناکام ہے اس میں تبدیلی ضروری ہے۔