شعبہئ تعلیم: جدید تصورات

درس و تدریس کا جدید نظام ”سٹیم (STEAM)“ کہلاتا ہے جو مختلف مضامین کے حوالے سے ایک جامع اصطلاح ہے اور اِس کا مطلب ’سائنس ٹیکنالوجی انجینئرنگ اور ریاضی‘ کے مضامین ہیں۔ پاکستان کی ضرورت تعلیم ہے اور یہ بات انتہائی زور دے کر پیش کی جانی چاہئے کہ شعبہئ تعلیم کے حوالے سے طویل اور قلیل مدتی اہداف کا تعین ہونا چاہئے۔ قومی رہنماؤں اور فیصلہ سازوں کیلئے لمحہئ فکریہ ہے کہ وہ تعلیم کے حوالے سے پیچھے رہ جانے سے ہوئے نقصان کے بارے میں سوچیں لیکن اگر ہم ایک دوسرے پر الزام تراشی‘ سیاسی پوائنٹ سکورنگ پر مبنی مخالفانہ بیانات اور سیاسی نظریات کی بنیاد پر نفرت انگیز (پولرائزنگ) معاشرے میں اُلجھے رہیں گے تو اِس سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا بلکہ جوں جوں وقت گزرتا جائے گا پاکستان کیلئے مشکلات اور چیلنجز مزید بڑھتے چلے جائیں گے۔ حکمرانی مزید پیچیدہ اور الجھتی چلی جائے گی اور اقتدار میں موجود کوئی بھی فریق قومی مسائل بشمول شعبہ تعلیم کی زبوں حالی کا کوئی خوشگوار حل تلاش نہیں کر سکے گا۔ آنے والی دہائیوں میں درس و تدریس پر تکنیکی ترقی حاوی رہے گی جو ہمارے معاشی ارتقا کیلئے ایک موقع ثابت ہوسکتی ہے بشرطیکہ ہم اس طویل اور مشکل سفر کا ابھی سے آغاز کر دیں لیکن اگر ایسا نہ کیا گیا تو ہم اقوام عالم سے پیچھے رہ جائیں گے اور یہ منظر گزشتہ تیس سالوں سے دیکھا جا رہا ہے۔
 اکیسویں صدی کی اگلی دہائیوں میں طویل مدتی مستقل معاشی ترقی یہ ہوگی کہ انسانی وسائل میں سرمایہ کاری کی جائے اور ہنرمند افرادی قوت پیدا ہو جو جدت طرازی اور عالمی تکنیکی پھیلاؤ اور تقاضوں کو سمجھنے کی اہلیت رکھتی ہو۔ اب تیل اور گیس کی دریافت یا کان کنی کے بونانزا جیسا کہ سونا‘ چاندی‘ ہیرے‘ پلاٹینم یعنی قیمتی دھاتیں اور پتھر وغیرہ کی تلاش سے عام شہریوں کے معیار زندگی میں بہتری لانے کا امکان نہیں رہا بلکہ تربیت یافتہ افرادی قوت کی ضرورت ہے۔ آنے والے دور میں وہی اقوام سرخرو (کامیاب) ہوں گی جن کے پاس تربیت یافتہ افرادی ہو گی۔ جو طبقات گلوبلائزیشن اور معاشی روابط کے خواہش مند نہیں ہیں انہیں جیوپولیٹیکل پاور گیمز کے نام پر ہونے والی تکنیکی ترقی کی ناگزیریت کا احساس نہیں ہے۔ چاہے ہم اسے علم کی معیشت کہیں‘ اسے چوتھا صنعتی انقلاب قرار دیں‘ سرحدی ٹیکنالوجیوں کا پھیلاؤ یا تخلیقی صنعتوں کی تیزی کا عنوان دیں‘ ان تمام مظاہر کے درپردہ محرک ”افرادی قوت“ کیلئے بڑھتی ہوئی مہارت کی مانگ ہے۔ امریکی محکمہ محنت نے پیش گوئی کی ہے کہ آج کے پینسٹھ فیصد بچے مستقبل میں ایسی ملازمتیں کر رہے ہوں گے جو ابھی ایجاد بھی نہیں ہوئی ہیں یعنی مستقبل آج سے قطعی مختلف ہوگا۔ مصنوعی ذہانت‘ مشین لرننگ اور ڈیٹا تجزیات میں پیشرفت علم کے منظم ہونے کے طریقے کو تبدیل کر رہی ہے اور پہلے ہی ملازمتی معمولات‘ ہر روز ایک جیسے کام کی تکرار‘ کم تکنیکی صلاحیت ملازمتوں کو غیر ضروری بنا رہی ہے۔ آن لائن سیلز یا ٹیکنالوجی فریم ورک اور ٹرانزیکشن پلیٹ فارمز کے ساتھ پلیٹ فارم معیشتیں‘ ڈیجیٹل میچ میکرز ٹمٹماتی معیشت کے دور میں داخل ہو رہی ہیں۔
 سال دوہزاربیس میں ورلڈ اکنامک فورم کے ایک سروے سے پتہ چلا کہ ڈیٹا انٹری کلرک‘ انتظامی اور ایگزیکٹو سیکرٹریز‘ انتظامیہ اور تنظیمی تجزیہ کار اور درمیانے درجے کے منیجرز‘ سیلز ورکرز‘ نیوز اینڈ سٹریٹ وینڈرز‘ صنعتوں کے پیداواری شعبے میں کام کرنے والے مزدور‘ اکاؤنٹنٹس اور آڈیٹرز‘ لیگل سیکرٹریز کی ضرورت نہیں رہے گی اور اِن کی بجائے مصنوعی ذہانت سے لیس ایسی مشینیں کام کریں گی جو تیزی سے کام کرنے اور اپنے کام سے مزید کام سیکھنے کا ہنر جانتی ہوں گی۔ مصنوعی ذہانت (اے آئی) اور مشین لرننگ ماہرین‘ ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن ماہرین‘ ڈیجیٹل مارکیٹنگ اور حکمت عملی کے ماہرین‘ ڈیٹا تجزیہ کار اور سائنسدان‘ بگ ڈیٹا ماہرین وغیرہ جیسی ملازمتوں کی مانگ میں اضافہ ہوگا۔ حکومت اور نجی شعبے میں کاروباری عمل کی آٹومیشن اور ڈیجیٹلائزیشن بھی وقت کے ساتھ بڑھے گی۔فکری شراکت کی بنیاد پر تخلیقی صنعتوں کی بڑھتی ہوئی اہمیت کی وجہ سے روایتی سائنس‘ ٹیکنالوجی‘ انجینئرنگ اور ریاضی (STEAM) کا ازسرنو جائزہ لیا گیا ہے تاکہ اشتہارات‘ فن تعمیر‘ ڈیزائننگ‘ فیشن‘ ٹیلی ویژن‘ ویڈیوز‘ فلم‘ موسیقی‘ فوٹو گرافی‘ اشاعت‘ پرفارمنگ آرٹس جیسے فنون لطیفہ کو مضامین میں زیادہ اہمیت دی جا سکے تاکہ سٹیم نامی حکمت عملی جو کہ سائنس‘ ٹیکنالوجی‘ انجینئرنگ‘ آرٹس اور ریاضی کا ایک نیا تصور ہے اِس میں ایجادات کرنے والے یا نت نئے تصورات پیش کرنے والوں کے حقوق‘ تجارت اور سرمایہ کاری کو محفوظ بنایا جا سکے۔ مستقبل میں انٹرنیٹ کی مدد سے ایسی تعلیم اور کاروبار عام ہوگا جس کے لئے ممالک کی سرحدیں معنی نہیں رکھیں گی اور اِس میں افراد یا ادارے سرحد پار خدمات فراہم کر رہے ہوں گے جس کیلئے ’سٹیم‘ کی اہمیت ہوگی اور یہی ترقی کا بڑا محرک ہوگا۔ اس کی مثال چین کی ترقی اور حکمت عملی سے دی جا سکتی ہے جو ہر سال ’ایس ٹی ای ایم‘ کے مضامین میں پچاس لاکھ گریجویٹ پیدا کر رہا ہے اور اِس کے علاؤہ ’سٹیم‘ مضامین میں پچاس ہزار ’پی ایچ ڈی‘ پیدا کرتا ہے (امریکہ سالانہ چونتیس ہزار سٹیم گریجویٹ پیدا کرتا ہے۔) اور امریکہ کی معروف جامعات میں سائنس اور انجینئرنگ کے اعلیٰ محکموں میں گریجویٹ طلبہ کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔
 سال دوہزار تک امریکہ سٹیم پی ایچ ڈی کی سالانہ پیداوار میں چین سے بہت آگے تھا۔ پاکستان میں 1950ء اور 1960ء کی دہائیوں کے ابتدائی برسوں میں جامعات اور کالجوں میں سائنس کے مضامین میں نسبتاً زیادہ طلبہ داخل ہوئے اور زیادہ تر فیکلٹی ممبران نے ’آئیوی لیگ سکولوں یا لندن‘ آکسفورڈ اور کیمبرج سے ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں حاصل کیں۔ راقم الحروف کو یاد ہے کہ حیدرآباد میں واقع میری الما میٹر‘ سندھ یونیورسٹی میں فزکس‘ کیمسٹری‘ ریاضی‘ زولوجی‘ جیولوجی‘ نباتیات میں بہت سے نوجوان اور انتہائی پرعزم فیکلٹی ممبران (اساتذہ) تھے جو دنیا بھر کی اعلیٰ یونیورسٹیوں سے پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کرکے پاکستان واپس آئے تھے لیکن پچاس سال طلبہ نے سائنس و کامرس‘ بزنس سٹڈیز‘ اسلامک سٹڈیز اور مقامی زبانوں وغیرہ میں زیادہ علم حاصل کرنا شروع کردیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ تعلیم مکمل کرنے یعنی گریجویشن کے بعد بے روزگاری کی شرح اب تک کی سب سے زیادہ ریکارڈ کی گئی ہے۔ ریاضی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) جیسے مضامین کی پاکستان میں طلب کم ہے اور آئی ٹی سے متعلق مضامین میں ہر سال صرف پچیس ہزار طلبہ گریجویٹ ہو رہے ہیں جبکہ بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنے کے لئے پاکستان کو سالانہ کم از کم ایک لاکھ آئی ٹی گریجوئٹس کی ضرورت ہے۔ ہمارے سکولوں اور کالجوں میں سائنس اور ریاضی کے اساتذہ کی آسامیاں خالی ہیں۔ طلبہ کو ”سٹیم مضامین“ کی طرف راغب کرنے کیلئے تعلیمی وظائف دیئے جائیں تو اِس عدم توازن کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ ہمارے سائنس کے محکموں میں صرف مٹھی بھر موجودہ فیکلٹی ممبران کو اعلیٰ غیر ملکی یونیورسٹیوں اور مقامی اداروں جیسے قائد اعظم یونیورسٹی‘ ایل او ایم ایس‘ این یو ایس ٹی، جی آئی کے یا اسی زمرے کے دیگر اداروں میں تربیت دی گئی ہے۔ مستقبل پر نظر رکھتے ہوئے پاکستان کو اپنے طلبہ سکالرشپ پروگراموں کیلئے امریکہ‘ برطانیہ‘ کینیڈا‘ آسٹریلیا اور جرمنی کی اعلیٰ یونیورسٹیوں میں تعلیم کیلئے بھجوانا چاہئے تاکہ یہ ڈاکٹریٹ کی ڈگریوں‘ پوسٹ گریجویٹ فیلوشپ اور سٹیم کے مضامین سے متعلق وزیٹنگ سکالر پروگراموں میں داخلہ لے سکیں اور پھر وطن واپس لوٹ کر مستقبل کی ضروریات کیلئے تکنیکی ہنرمند افرادی قوت پیدا کر سکیں۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر عشرت حسین۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)