گزشتہ تین برس کے دوران پاکستانی روپے کی قدر میں 50 فیصد کمی ہوئی ہے۔ ملک کے مرکزی مالیاتی ادارے (سٹیٹ بینک آف پاکستان) کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو کر گیارہ ارب ڈالر رہ گئے ہیں جو 2 ماہ کی درآمدات کیلئے بھی ناکافی ہیں۔ دوسری طرف سٹیٹ بینک کو آئندہ 9 ماہ میں 14 ارب ڈالر مختلف قرضہ جات کی اقساط یا اِن پر سود کی ادائیگی کیلئے دینے ہیں اور جب قومی بینک میں زرمبادلہ کم ہو اور ادائیگیاں زیادہ ہوں تو تکنیکی طور پر اِسے ’ادائیگی کا بحران (Balance of Payment)‘ کہا جاتا ہے یعنی ادائیگی عدم توازن کا شکار ہو جاتی ہے۔ ایسی صورتحال کا دوچار ہونے والی کوئی بھی قوم اپنی ضروریات کے مطابق درآمدات نہیں کرسکتی حتیٰ کہ اِسے درکار انتہائی بنیادی و ضروری اشیا بھی درآمد کرنا ممکن نہیں رہتا اور نہ ہی بیرونی قرضہ جات کی ادائیگی کے قابل رہا جاتا ہے۔دنیا کے کئی ممالک اِس قسم کے مالیاتی بحرانوں سے گزرے ہیں جیسا کہ لبنان کی کرنسی جو کہ 1500 ڈالر سے گر کر 33 ہزار فی ڈالر تک جا پہنچی اور لبنان کی صورتحال اِس حد تک خراب ہو گئی کہ حکومت کے پاس اُن لوگوں کو ادا کرنے کیلئے بھی ڈالر نہیں رہے جنہوں نے اپنے بینک کھاتوں میں ڈالر رکھوائے تھے۔
اِس بحران کی وجہ سے لبنان میں اشیائے خوردونوش کی قلت پیدا ہوئی۔ لوگ بھوک سے مرنا شروع ہوئے۔ لوگوں نے دیگر ممالک کے لئے رخت سفر باندھا۔ سال 2020ء میں لبنان میں مہنگائی کی شرح 85 فیصد تھی اور غربت میں بے انتہااضافہ ہو چکا تھا۔ ایک وقت تھا کہ لبنان مشرق وسطی (مڈل ایسٹ) کا امیر اور آزاد ملک تھا۔ آج لبنان کے سیاسی رہنما ایک دوسرے کو کوس رہے ہیں اور ایک دوسرے پر بدعنوانی کا الزام عائد کر رہے ہیں۔ آج لبنان کی 80فیصد آبادی غریب ہو چکی ہے اور لبنان کی کرنسی اپنی 80فیصد قدر کھو چکی ہے۔ لبنان میں صرف ایک گھنٹہ بجلی فراہم کی جاتی ہے۔ عالمی بینک کے مطابق لبنان کی یہ خراب صورتحال اِس کے فیصلہ ساز اشرافیہ کی وجہ سے ہے جنہوں نے ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دی۔لبنان کی طرح سری لنکا بھی ادائیگیوں کے بحران کا سامنا کر رہا ہے۔ سری لنکن کرنسی (روپیہ) کی قدر بھی کم ہوئی ہے۔حکومت سات گھنٹے یومیہ بجلی کی لوڈشیڈنگ کر رہی ہے۔ سری لنکا میں جان بچانے والی ادویات‘ کھانے پینے کی اشیاء کم ہیں۔ تعلیمی اداروں میں امتحانات صرف اِس وجہ سے منسوخ کر دیئے گئے ہیں کیونکہ حکومت کے پاس کاغذ درآمد کرنے کیلئے وسائل نہیں ہیں۔
اسی طرح ڈرائیونگ لائسنس جاری کرنے کیلئے پلاسٹک کارڈز بھی نہیں رہے۔ حکومت نے امن و امان قائم کرنے کیلئے کرفیو نافذ کیا لیکن عوام بڑی تعداد میں کرفیو کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ اس وقت پاکستانی درآمدات پر بہت زیادہ خرچ ہو رہا ہے۔ ہمارا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کے چھ فیصد بیس ارب ڈالر کو چھونے والا ہے۔ ادائیگی بحران سو دیگر بحرانوں کا محرک ہے۔ ادائیگی بحران کسی ملک کے ”طویل مدتی استحکام اور سماجی امن“ کیلئے خطرہ بن جاتا ہے۔تاہم اس مسئلے کا حلموجود ہے۔ اگر حکومت بجلی کے شعبے میں اصلاحات سے آغاز کرے۔ اشیا ء پر حکمرانی کرنے والے گروہ (کارٹلز) ختم کئے جائیں۔ چینی کارٹل‘ کھاد کارٹل‘ پاور کارٹل اور آٹوموبائل کارٹل وغیرہ۔ اِسی طرح گھریلو پیداوار کا شعبہ بنانا چاہئے۔ ہمارے پاس وسیع اراضی فضول پڑی ہے جس سے استفادہ ہونا چاہئے۔ پاکستان کے پاس نو ارب بیرل پیٹرولیم تیل اور ایک سو پانچ ٹی سی ایف شیل گیس ہے۔ ہمیں ایک نئی ہائیڈرو کاربن ایکسپلوریشن لائسنسنگ پالیسی کی بھی ضرورت ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)