دور اندیش زعما کا فقدان

یا وہ دور تھا جب سابقہ سوویت یونین اور افغانستان میں سرگرم تنظیمیں ایک دوسرے کے خون کی پیاسی تھیں اور یا پھرآج کا دور ہے کہ روس افغانستان سے سفارتی تعلقات قائم کر کے طالبانِ کی حکومت کو ایک طرح سے تسلیم کر لیا ہے۔ یہ ذھنی اور سیاسی انقلاب اگر نہیں ہے تو پھر کیا ہے روس اور افغانستان کے آپس میں نزدیک آ نے پر ظاہر ہے امریکہ کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے ہیں پر سیاست میں کوئی حرف آ خر نہیں ہوا کرتا دوسری جنگ عظیم کے بعد ایک لمبے عرصے تک مغرب کے ممالک نیٹو اور وارسا پیکٹ جیسے دو عسکری گروہوں میں تقسیم رہے کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ ایک دن ایسا بھی آ ئے گا کہ یہ دونوں عسکری ادارے اپنی افادیت کھو بیٹھیں گے دنیا کا سیاسی نقشہ ہی بدل جاے گا کل تک جو ممالک ایک دوسرے کے بیری تھے وہ آ پس میں شیر وشکرہو جائیں گے اور کل تک جو ممالک ایک دوسرے کی دوستی کا دم بھرتے تھے وہ ایک دوسرے کے خلاف ہو جائیں گے چشم فلک نے یہ سب کچھ دیکھا۔ایک دور تھا کہ جب دنیا میں بیک وقت کئی معاملہ فہم دور اندیش اور سیاسی ادراک رکھنے والے قائدین موجود تھے جیسا کہ روزویلٹ‘ سر ونسٹن چرچل‘ چارلس ڈیگال‘ محمد علی جناح‘ مارشل ٹیٹو‘سوئیکارنو‘ جمال عبدالناصر اور ان جیسے اعلیٰ پائے کے کئی اور زعما کہ جن کے نام سر دست یاد نہیں ا ٓرہے۔
 آج عالمی منظر نامے پر ان جیسے قائدین کی کمی محسوس ہورہی ہے اور اسی وجہ سے دنیا آج سیاسی انتشار کا شکار ہے۔کوئی تنازعہ شروع ہوجائے تو اسے سلجھانے والا کوئی نظر نہیں آتا۔ ہر وقت اس بات کا خدشہ رہتا ہے کہ کسی وقت بھی دنیا میں تیسری جنگ عظیم شروع ہو جائے گی۔ہماری جنریشن کی یاد میں سوویت یونین ایک عظیم امپائر تھی پر ماضی کی عظیم قوتوں کی طرح جب خبط عظمت کا شکارہو کر اس نے اپنی چادر سے زیادہ پاؤں پھیلائے تو وہ کمزور پڑ گئی اور پھر اس کی کمزوری سے امریکہ نے فائدہ اٹھا کر اس کا تیا پانچہ کیا۔آج امریکہ سے بھی اسی قسم کی غلطیاں سر زد ہو رہی ہیں اور کیا عجب کل کلاں وہ بھی شکست و ریخت کا شکارہو جائے۔اب کچھ تذکرہ سری لنکا کا ہوجائے جہاں حالات روز بروز بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں اور حال ہی میں سری لنکا میں ڈاکٹروں نے متنبہ کیا کہ زندگی بچانے والی دوائیں تقریباً ختم ہوچکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے اقتصادی بحران کے سبب اس سے کہیں زیادہ اموات ہوسکتی ہیں جتنی کورونا وائرس کی وبا سے ہوئی تھیں۔سری لنکا 1948میں اپنی آزادی کے بعد سے اب تک کے سب سے سنگین اقتصادی بحران سے دوچار ہے۔ جبکہ خوردنی اشیاء، ایندھن اور دواؤں کی بھی قلت پیدا ہوگئی ہے۔
ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق سری لنکا میڈیکل ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں ہسپتالوں میں امپورٹیڈ طبی ساز و سامان اور اہم دوائیں تقریبا ًختم ہوچکی ہیں۔ گزشتہ ماہ سے ہی متعدد شعبوں میں معمول کی سرجری معطل کردی گئی ہے کیونکہ ہسپتالوں کے پاس اینستھیسیا تقریبا ًختم ہوچکا ہے۔ ایس ایل ایم اے کا مزید کہنا ہے کہ مریضوں کی ایمرجنسی سرجریاں بھی عنقریب ممکن دکھائی نہیں دے رہی ہیں۔ایس ایل ایم اے نے اس صورت حال سے صدر گوٹابایا راجاپکسے کو مطلع کرنے کیلئے ایک خط بھیجنے کے بعد بتایاکہ ہمیں بہت سخت فیصلے کرنے پڑرہے ہیں۔ ہمیں یہ فیصلہ کرنا پڑ رہا ہے کہ کس کا علاج کریں اور کس کا علاج نہ کریں۔ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ اگر چند دنوں کے اندر ضروری طبی اشیا کی سپلائی شروع نہیں ہوئی تو ہلاکتوں کی تعداد کورونا وائرس کی وبا سے ہونے والی ہلاکتوں کے مقابلے کہیں زیادہ ہوں گی۔ دوسری طرف اقتصادی بحران کی وجہ سے عوام میں غصہ بڑھتا جارہا ہے اور راجا پکسا سے استعفیٰ دینے کیلئے بڑے پیمانے پر مظاہرے ہورہے ہیں۔
دارالحکومت کولمبو میں مسلسل دوسرے روز ہزاروں لوگوں نے موسلادھار بارش کی پرواہ کئے بغیر صدارتی دفتر کے باہر مظاہرے کئے۔کاروباری رہنماؤں نے بھی صدر راجا پکسے سے اپنا عہدہ چھوڑ دینے کی اپیل کی۔ انہوں نے کہا کہ سری لنکا میں ایندھن کے سخت بحران نے ان کے کاروبار کو معطل کردیا ہے۔راجا پکسے کی حکومت نے سری لنکا کو اس بحران سے نکالنے کیلئے آئی ایم ایف سے بیل آوٹ پیکج کی درخواست کی ہے اور سری لنکن وزیر خزانہ علی صابری نے جمعے کے روز پارلیمان کو بتایا کہ انہیں آئی ایم ایف سے تین ارب ڈالر کی مدد ملنے کی امید ہے۔غیر ملکی زرمبادلہ کی کمی کی وجہ سے سری لنکا کو 51 ارب ڈالر کے غیر ملکی قرض کی ادائیگی میں کافی پریشانیاں آرہی ہیں‘ کورونا وائرس کی وبا نے اس کی آمدنی کے سب سے اہم ذریعہ سیاحت کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے‘ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ سری لنکا کے اقتصاد ی بحران کی بڑی وجہ حکومت کی بدنظمی‘بڑے پیمانے پر قرض لینا اور ٹیکسوں میں رعایت کے غلط مشورے پر عمل کرنا ہے۔