جنگی جرائم 

سال 1942 کے آخری مہینے میں، اتحادی افواج نے”پہلا مشترکہ اعلامیہ جاری کیا جس میں باضابطہ طور پر جرمن افواج کے ہاتھوں اجتماعی قتل کو نوٹ کیا گیا اور شہری آبادی کے خلاف تشدد کے ذمہ داروں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا عزم کیا گیا۔مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کیلئے متعدد دستیاب طریقوں پر غور و خوض کرنے کے بعد، نازی جنگی مجرموں کے مجرمانہ ٹرائل کا ایک طریقہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے پیش کیا اور دوسری جنگ عظیم کے اتحادیوں نے اسے قبول کیا۔آج، جنگ زدہ مشرقی یورپی ریاست یوکرین اور بین الاقوامی برادری کی جانب سے نیورمبرگ طرز کے ٹرائلز کے لیے شور مچایا جا رہا ہے۔ اپنے تازہ پیغام میں، یوکرین کے صدر زیلنسکی نے مضافاتی ارسپن اور بوچا کے قصبوں میں روسی مظالم اور جنگی جرائم کے خلاف فوری اور فیصلہ کن اجتماعی کاروائی کا مطالبہ کیا ہے، جب روسی فوجیوں کے یوکرین کے دارالحکومت سے انخلا کیلئے ڈونباس اور کریمیا کے علاقوں پر توجہ مرکوز کی گئی تھی۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ مذکورہ قصبوں کی گلیوں میں لاشیں پڑی ہیں۔ کچھ کو عجلت میں  کھودی گئیاجتماعی قبروں میں دفن کیا گیا جبکہ دیگر کو پلاسٹک کے تھیلوں میں باندھ کر گھروں کے پچھواڑے میں سڑنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کے غصے میں حصہ ڈالنے کے لیے مقامی شہریوں کے سروں اور سینے کے پیچھے قریب سے گولیاں مارے جانے کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ بہت سی لاشیں ملی ہیں جن کے ہاتھ پیٹھ کے پیچھے بندھے ہوئے تھے،

جو اسیر ہونے کا منظر پیش کرتے ہیں اور عالمی صدمے اور غم میں اضافہ کرتے ہیں۔ روس کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کیے جا رہے ہیں اور سزاؤں کی تحقیقات کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ سوال باقی ہے: کیا صدر پوتن اور ان کے ساتھیوں کے خلاف نیورمبرگ طرز کے مجرمانہ مقدمات چلائے جا سکتے ہیں،  یا   بین الاقوامی فوجداری عدالت کریملن کی باگ ڈور رکھنے والے لوگوں پر مقدمہ چلانے میں ناکام رہے گی؟نیورمبرگ ٹرائلز اپنی نوعیت کے پہلے ٹرائل تھے۔ اس سے پہلے بین الاقوامی فوجداری مقدمے کی کوئی مثال بطور نظیر دستیاب نہیں تھی امریکی قومی سلامتی کے مشیر، جیک سلیوان کے مطابق، ثبوت کے چار اہم ذرائع ہیں: امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے جمع کی گئی معلومات، بشمول انٹیلی جنس ذرائع سے؛ کیس کو تیار کرنے اور قتل سے متعلق فرانزک دستاویز کرنے کے لیے زمین پر یوکرین کی کوششیں‘ اقوام متحدہ جیسے بین الاقوامی اداروں سے مواد‘ اور عالمی آزاد میڈیا کے نتائج، بشمول تصاویر، انٹرویوز، اور دستاویزات کا بڑا ذخیرہ۔آئی سی سی میں بدقسمتی سے امریکہ، چین، روس اور یوکرین کی رکنیت نہیں ہے۔ اگرچہ ماضی میں، یوکرین نے 2013 میں کریمیا کے روسی الحاق کی تحقیقات کی منظوری دے دی ہے، لیکن زیادہ امکان ہے کہ عدالت کی طرف سے جاری کردہ گرفتاری وارنٹ کو روس کی جانب سے عدم تعمیل پر پورا کیا جائے گا۔

ایک اور رکاوٹ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں روس کے ویٹو پاور کی صورت میں موجود ہے، یہ ادارہ آئی سی سی کے فیصلوں پر عمل درآمد کیلئے ذمہ دار ہے۔موجودہ روس یوکرین تنازعہ میں آئی سی سی کی کاروائیوں کی عدم تعمیل پہلے ہی دیکھی جا چکی ہے۔ روسی نمائندے یوکرین کی جانب سے نسل کشی کے جرم کی روک تھام اور سزا کے کنونشن 1948 کے تحت آئی سی سی میں دائر کی گئی شکایت کے خلاف ظاہر کرنے میں ناکام رہے۔ لہذا، نیورمبرگ ٹریبونل کی طرح اقوام کے ایک گروپ کی طرف سے قائم کردہ خصوصی ٹربیونل ہی واحد امکان ہو سکتا ہے۔ اس طرح کی مثالیں ماضی میں بھی مل سکتی ہیں۔ 1990 کی دہائی کے اوائل میں بلقان کے تنازعات اور 1994 کے روانڈا کے قتل عام کے دوران جنگی جرائم کی سزا دینے کیلئے قائم کیے گئے ٹربیونلز یوکرین کیلئے مثال کے طور پر کام کر سکتے ہیں۔ ایک اور مثال سیرا لیون کی خصوصی عدالت ہے، جو 2002 میں اقوام متحدہ کے تعاون سے 1996 میں ملک کے خانہ جنگی کے دوران ہونے والے مظالم کے ذمہ دار افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کیلئے تشکیل دی گئی تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ روسی حملے کو کبھی بھی جائز قرار نہیں دیا جا سکتا اور نہ ہی جنگی جرائم، بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، کسی بھی ریاست کی خودمختاری، اور/یا شہریوں کے وقار کو مجروح کیا جا سکتا ہے۔ تاہم، آئی سی سی میں جنگی جرائم کے ٹرائل یا نیورمبرگ ٹربیونل سے مشابہت رکھنے والی کسی چیز کی توقع ایک دور کی بات ہو سکتی ہے۔ بین الاقوامی قانون کبھی بھی اتنا مضبوط نہیں رہا کہ بااثر ممالک کے جنگی جرائم کو انصاف کے کٹہرے میں لا سکے۔ یہ روس یوکرین تنازعہ میں بھی نہیں ہوگا.