موجودہ نئی حکومت کو بے شمار چیلنجوں کا سامنا ہے جسے حکومتی کاموں میں محتاط منصوبہ بندی اور اِس منصوبہ بندی پر مؤثر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ خود وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ”پاکستان کی معیشت خوفناک حالت میں ہے اور حکومت کو اس میں بہتری لانے کیلئے بھرپور کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔“ پاکستان کو 100 ارب ڈالر سے زائد کے قرضے کی واپسی کے ساتھ جاری اخراجات جیسے محاذوں پر خسارے کا سامنا ہے اور اس سے نمٹنے کیلئے ملک کو سالانہ چودہ ارب ڈالر سے زیادہ کی ضرورت ہے جس کا مطلب ہے کہ ہمارا قرض اگلی دو دہائیوں میں ساڑھے تین سو سے چار سو ارب ڈالر جیسی بلند سطح تک پہنچ سکتا ہے۔ پاکستان کا تجارتی خسارہ ایک ایسی معیشت کو متاثر کر رہا ہے جو کورونا وبا کے اثرات سے دوچار ہے جس نے نہ صرف لاکھوں پاکستانیوں بلکہ پاکستان جیسے کئی غریب ممالک کو متاثر کیا ہے۔ اِن چیلنجوں کے پہاڑوں کے درمیان مثبت بات یہ ہے کہ حکومت نے کم آمدنی والے طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی مدد کیلئے چند اقدامات کئے ہیں۔ تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ کیا گیا ہے جس سے یقینا ایک خاص طبقے کی معاشی مشکلات کم ہوں گی۔
کم از کم اجرت میں بھی اِضافہ کیا گیا ہے جو بہت ہی حوصلہ افزأ ہے تاہم نجی اِداروں کو کم سے کم اُجرت دینے کا پابند بنانے کا ہدف بھی حاصل ہونا چاہئے۔ مزید برآں آسمان چھوتی ہوئی افراط زر (مہنگائی) سے نمٹنے کیلئے صوبائی حکومتوں کی مشاورت سے منصوبہ بندی کے فیصلے نے امید کی کرن پیدا کردی ہے کہ یہ حکومت معاشی مشکلات کے خاتمے کیلئے ایک پیکیج لے کر آئے گی لیکن اس طرح کا منصوبہ جلد از جلد بنایا جانا چاہئے کیونکہ عوام فوری ریلیف چاہتے ہیں تاکہ وہ عید الفطر کے موقع پر راحت محسوس کریں لیکن صرف معاشی محاذ پر چیلنج ہی نہیں بلکہ متعدد دیگر چیلنجز بھی نئی حکومت کی کارکردگی کو متاثر کرسکتے ہیں۔ تحریک انصاف نے اجتماعی طور پر پارلیمان سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر اس فیصلے پر عمل کیا جاتا ہے تو اس سے قومی اسمبلی میں ایک سو سے زائد نشستیں خالی ہو جائیں گی۔
اگر پارٹی ایوان بالا اور صوبائی اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا فیصلہ بھی کرتی ہے تو اِس سے پاکستان ایک نئے بحران کا شکار ہو جائے گا اور معاشی اصلاحات کے تمام امکانات ختم جائیں گے جن کی نئی حکومت سے اُمید ہے۔ اس لئے نئی حکومت کو پہلے مسائل سیاسی طور پر حل کرنا چاہئیں۔ سیاسی درجہ حرارت کو ٹھنڈا کرنے کا ایک طریقہ انتقامی سیاست سے بچنے میں ہے۔جس سے تحریک اور موجودہ حکومت کے درمیان شدید تلخی پیدا ہوسکتی ہے جس کی وجہ سے سڑکوں پر احتجاج طول پکڑ سکتا ہے جو معاشی اصلاحات کیلئے اچھا شگون نہیں ہوگا۔ یہ سیاسی طور پر غیر یقینی کی صورتحال پیدا کرنے کا موجب ہے‘ جس سے سرمایہ کاروں کو اپنی سرمایہ کاری روکنے پر اکسایا جائے گا۔ عدم اعتماد کے ووٹ سے پیدا ہونے والی غیر یقینی صورتحال اور تحریک کی حکمت عملی سے متعلق غیر متوقع صورتحال کی وجہ سے گزشتہ چند ہفتوں کے دوران کاروباری طبقے کو اربوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔
سیاسی افراتفری و عدم استحکام کی صورتحال سے نمٹنے کا ایک طریقہ حزب اختلاف تک پہنچنے کا ہے۔ تحریک کے اندر ایسے عناصر ہیں جن کے دروازے کھلے ملیں گے۔ ایسے عناصر کو اصلاحات کے عمل میں شامل کیا جا سکتا ہے اور ایک سیاسی مکالمہ شروع کرنے کی ضرورت ہے جس کا مقصد اپوزیشن کی شکایات اور تحفظات کو سمجھنا ہونا چاہئے۔ بدعنوانی (کرپشن) سے متعلق کوئی بھی مقدمہ منسوخ یا تحقیقات معطل نہیں ہونی چاہئیں یا تحقیقات کو روکا جانا چاہئے کیونکہ اگر ایسا کیا گیا تو ایک تو ایسا کرنا غیر دانشمندانہ اقدام ہوگا اور دوسرا اِس سے تحریک انصاف کے انسداد بدعنوانی سے متعلق بیانیے کو تقویت اور عوامی پذیرائی ملے گی۔ وزیراعظم شہباز شریف ایک اچھے منتظم کے طور پر جانے جاتے ہیں اور اُنہیں پنجاب کی وزارت اعلیٰ سے ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالنے کا نادر موقع ملا ہے تو اِس موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے سرائیکی عوام میں پائے جانے والے احساس محرومی کو بھی ختم کرنا چاہئے اور شمالی پنجاب کی طرح جنوبی پنجاب کے غیر ترقی یافتہ علاقوں میں بھی ترقیاتی عمل کیلئے مالی وسائل مناسب بجٹ کی صورت مختص کرنا چاہئے۔
نئی حکومت کو بلدیاتی سطح پر اختیارات کی منتقلی پر توجہ دینی چاہئے۔ مقامی کونسلوں کو اختیارات تفویض کرنے چاہیئں۔ ضروری ہے کہ باقی ماندہ صوبوں میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کیا جائے اور عوام کے بلدیاتی منتخب نمائندوں کو یہ ذمہ داری سونپی جائے کہ وہ بنیادی مسائل حل کرنے کیلئے فیصلہ سازی میں شریک ہوں۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: عبدالستار۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)