ملک کو درپیش بڑے پیمانے پر معاشی خرابی کا علاج آسان نہیں۔ یہ معاشی مسائل کسی ایک حکومت کی کارکردگی نہیں بلکہ اِس میں بہت سی حکومتوں کی شراکت داری ہے اور یہی وجہ ہے کہ کوئی ایک برسراقتدار سیاسی جماعت اِن مسائل کو تن تنہا حل نہیں کر پائے گی۔ اِس موقع پر پاکستان کو سب سے پہلے آئی ایم ایف کے موجودہ پروگرام کو بحال کرنے پر توجہ دینی چاہئے۔ آئی ایم ایف کی مدد حاصل کرنا دراصل نفع اور نقصانات کا مجموعہ ہے لیکن یہ بحث کسی دوسرے وقت کے لئے اُٹھا رکھی جا سکتی ہے۔ جب کسی ملک کی معیشت غیر یقینی کے مرحلے یا دور سے گزر رہی ہوتی ہے تو یہ نازک وقت جھگڑے اور الزام تراشی کا نہیں ہوتا کیونکہ اگر ایسا کرنے سے غیرملکی مدد یا سرمایہ کاری رک جاتی ہے اور سردست پاکستان کی ضرورت یہ ہے کہ ہم اپنے قومی قرضوں کی فوری ادائیگی کا بندوبست کریں۔ سیاسی حکومتوں کی سیاسی مجبوریاں ہوتی ہیں اور وہ عوام پر کم سے کم بوجھ ڈالنا چاہتی ہیں لیکن ایسا کرنا اب ناگزیر ہو چکا ہے۔ ایک بار اگر معیشت پٹڑی پر آ جائے تو پھر حکومت کیلئے ضروری اشیاء کی قیمتوں میں کمی کرنا آسان ہو جائے گا اور اِس مقصد کے لئے احساس پروگرام سے مدد لی جا سکتی ہے۔
پاکستان کی دوسری ترجیح بیرونی قرضوں کی ری شیڈولنگ ہونی چاہئے۔ پاکستان کے ذمے واجب الادأ کل بیرونی قرض جی ڈی پی کا پینتیس فیصد تک پہنچ چکا ہے جو برآمدات اور ترسیلات زر سے حاصل ہونے والے زرمبادلہ کا بائیس فیصد تھا۔ آج ہم ایک ایسے مقام پر ہیں جہاں ایسا لگتا ہے کہ حکومت کا بنیادی کاروبار کرنٹ اکاؤنٹ اور مالی خسارے کا انتظام کرنے کے لئے اقدامات کرنا ہے۔ اِس وقت میں کہیں سے بھی قرض لینا آسان نہیں ہوگا۔ پاکستان نے پہلے بھی اپنے قرضوں کی ری شیڈولنگ کی کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہیں ہوئی ہے تب کورونا وبا کا حوالہ دیا گیا تھا جبکہ اِس مرتبہ ہمارا نقطہ نظر مختلف ہونا چاہئے۔ سب سے پہلے ہمیں صرف پیرس کلب اور چین ہی نہیں بلکہ تمام قرض دہندگان سے ری شیڈولنگ کا مطالبہ کرنا چاہئے۔ ہمارے کل غیر ملکی قرضوں کا نصف سے زیادہ آئی ایف آئی سے آتا ہے۔ اگرچہ ان کا قرض کم لاگت کا ہے لیکن قرض کی مدت اور ماضی کے قرضوں کی خدمت کیلئے نئے قرضے ان کے قرض کی لاگت کو بڑھاتے ہیں۔
حکومت کو آئی ایف آئی پر اثر ورسوخ رکھنے والے عالمی دارالحکومتوں سے رابطہ کرکے انہیں قائل کرنا ہوگا۔ ضرورت نقطہ نظر میں تبدیلی کی بھی ہے۔ قرض کے لئے رجوع کرنے کے ساتھ پاکستان کے پاس معاشی ترقی کا کوئی منصوبہ (لائحہ عمل) ہونا چاہئے۔ قرض دہندگان کو معلوم ہونا چاہئے کہ پاکستان کے پاس قرض واپس کرنے کی بھی حکمت عملی موجود ہے۔ اقتصادی ترقی کے منصوبوں میں نجی پیداواری صلاحیت اور برآمدات کو بڑھاوا دینے کے ابواب بھی ہونے چاہئیں۔ غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کا واحد طریقہ برآمدات میں اضافہ ہے۔ اگر قرضوں کی واپسی میں رعایت مل جاتی ہے تو حکومت کو زیادہ لاگت والے قرضوں کی واپسی کیلئے بچت کا کچھ حصہ استعمال کرنا ہوگا۔ جزوی طور پر‘ بچت صنعت کیلئے اہم سازوسامان درآمد کرنے کیلئے مختص ہونی چاہئے۔ پاکستان کو اِس بات کی بھی کوشش کرنی چاہئے کہ قرضوں کی ری شیڈولنگ کی مدت کے دوران سود وصول نہ کیا جائے جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ یہ کام آسان نہیں ہوگا لیکن ہمیں قرض دہندگان کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ اس مشکل کا آسان اور اِس مشق کو بامعنی بنایا جاسکے۔ ایک اور اہم بات نجی بجلی گھروں (آئی پی پیز) سے معاہدوں پر نظرثانی ہے۔ نجی بجلی گھروں کا شعبہ اس قدر پیچیدہ ہے کہ اِسے مارکیٹ اکنامکس اور نجی شرکت کے سادہ تصور سے حل نہیں کیا جا سکے گا۔(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ہمایوں اختر خان۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)