پاکستان کو اپنے قیام سے قومی زندگی کے تقریبا سبھی بڑے شعبوں میں بے شمار چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا ہے جن میں صحت‘ تعلیم‘ معیشت‘ سیاست وغیرہ شامل ہیں لیکن جس شعبے کو سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے وہ تعلیم کا ہے۔ تعلیم کے شعبے سے قومی زندگی کے تمام شعبوں کو اہل انسانی وسائل فراہم کرنے کی توقع کی جاتی ہے۔ یہ قوم کی تعمیر کرتا ہے اور ملک میں استحکام پیدا کرتا ہے اور لوگوں کو شہری کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ کرنا بھی اِسی کی وساطت سے ممکن ہوتا ہے۔ تعلیم ہی سے مہذب اور حب الوطن نسل پیدا ہوتی ہے جو معاملات کو حل کرنے کے لئے افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کرتی ہے اور اِسے اپنی قومی ذمہ داریوں کا احساس دلاتی ہے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو رہا ہے اور تعلیم و خواندگی قومی شعور میں اضافے کا باعث نہیں بن رہے یعنی یہ کہ تعلیم سے جڑا ”قومی مقصد“ حاصل نہیں ہو رہا ہے۔ پاکستان کی شرح خواندگی کم ہے اور ہزاروں طلبہ اپنی ثانوی تعلیم مکمل کرنے سے پہلے ہی تعلیم چھوڑ رہے ہیں۔
بہت سے سکول ایسے ہیں جو صرف کاغذوں پر موجود ہیں۔ آج کی دنیا مسابقتی ہے۔ اِس میں زندہ رہنے کے لئے تعلیمی شعبے کو ترقی اور مکمل توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اساتذہ کسی بھی معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی جیسا کلیدی مقام رکھتے ہیں جو علم اور سماجی تبدیلی کے لئے مشعل راہ بھی ہیں۔ اِس سلسلے میں گلوبلائزیشن اور ٹیکنالوجی نے بھی اپنا اپنا کردار ادا کیا ہے اور اِس کی اپنی ذمہ داریوں میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ اچھی تعلیم اچھے اساتذہ کے بغیر نامکمل اور ناممکن ہے۔ اساتذہ آنے والی نسلوں کو سوچنے اور تخلیق کرنے کی پرورش اور ترغیب دیتے ہیں اور ساتھ ہی انہیں اجتماعی بہبود کی طرف راغب کرتے ہیں تاہم بہترین اساتذہ وہ ہوتے ہیں جو طلبہ میں خود سے سیکھنے‘ خود شناسی اور نصاب پر سوچنے سمجھنے اور ازخود اصلاح کی عادت ڈالنے میں کامیاب ہوں۔
اساتذہ کو طلبہ کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔ سرپرست کے طور پر بھی اساتذہ کا ایک کردار ہے۔ اساتذہ مہربان اور سمجھانے والے ہوتے ہیں جو طلبہ کی شخصیت اور کردار پر ایسے نقوش چھوڑتے ہیں جو زندگی بھر اِن طلبہ کے ساتھ رہتے ہیں۔ اسلامی نکتہئ نظر سے دیکھا جائے تو تدریس کا پیشہ اور شعبہ نیک و مقدس ہے۔ دنیا میں بہت سے پیشے ہیں اور ہر ایک کا کسی نہ کسی طرف جھکاؤ‘ دلچسپی اور قابلیت ہوتی ہے اور یہ سبھی پیشے کسی قوم کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں لیکن کسی استاد کی بے لوث خدمت کے بغیر کسی بھی قسم کی ترقی‘ مادی یا روحانی ممکن نہیں ہے۔ اگرچہ کوئی شخص سائنسدان‘ وکیل‘ فلسفی یا حکمران ہو سکتا ہے لیکن اسے کامیاب زندگی گزارنے کے لئے ایک اچھے انسان بننے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اچھے اساتذہ کی وجہ سے جاپان اور جرمنی جیسے ممالک جنہیں دوسری جنگ عظیم میں شکست اور تباہی کا سامنا کرنا پڑا وہ راکھ سے اٹھنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ مذکورہ ممالک کے اساتذہ نے اپنے قومی ایجنڈے کو پورا کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور مذکورہ دونوں ممالک نے سماجی اور معاشی طور پر ترقی کی۔ اساتذہ کو آنے والی نسلوں کے لئے رول ماڈل کے طور پر بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: امین ویلیانی۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)