قومی حکمت عملی‘ اصلاحات اور سیاسی تبدیلی

ملک کی سیاسی ہنگامہ آرائی کے دوران حکومتی پالیسیوں پر عمل درآمد بھی سست ہوا ہے۔ عوامی پالیسیاں خاص طور پر سماجی پالیسیاں عموماً سب سے پہلے نشانہ بنتی ہیں  جن میں تعلیم‘ صحت‘ ماحولیات‘ آبادی کی فلاح و بہبود اور دیہی ترقی آسان اہداف ہوتے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان میں سیاسی تبدیلی رونما ہو رہی ہے یہ یاد دلانا مناسب ہے کہ اچھی پالیسیاں جن سے عوام کو فائدہ پہنچے گا انہیں ختم کرنے کی بجائے برقرار رکھنا چاہئے۔ اِس سلسلے میں اگر تحریک انصاف کی شروع کردہ صحت کے شعبے کی اصلاحات اور اِن سے متعلق نتائج یا مثالوں کا جائزہ لیا جائے تو دیکھا جا سکتا ہے کہ مذکورہ اصلاحات کے کس قدر اچھے نتائج برآمد ہوئے۔ اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ پاکستان اور دیگر ممالک میں پولیو کے خاتمے کے پروگراموں کا ایک تعلق انتخابی حکمت عملیوں سے بھی ہے۔ محقق شاہ میر بلوچ نے 2019ء میں لکھا تھا کہ سال دوہزارتیرہ کے عام انتخابات کے بعد دوہزارچودہ میں پولیو کے کیسز کی تعداد بڑھ کر تین سو چھ ہو گئی اور اس سے پہلے کہ دو ہزار پندرہ میں یہ تعداد چوون تھی۔ سال دوہزارسولہ میں بیس اور دوہزارسترہ میں صرف آٹھ رہی۔

ایک اور انتخابی سال دوہزاراٹھارہ کے موقع پر بھی اچانک پولیو کیسز بڑھ کر بارہ ہو گئے۔ دوہزاراُنیس کے پہلے چھ ماہ کے اندر ملک بھر میں پولیو کے بتیس کیسز رپورٹ ہوئے۔“ اِس تحقیق کا سنجیدہ نتیجہ یہ تھا کہ ہر سیاسی حکومت کی تبدیلی کے ساتھ پولیو کیسیز میں اضافہ ہوتا ہے۔پاکستان میں سماجی صحت کے بیمہ نظام میں غیر معمولی پیش رفت ہوئی ہے۔ قومی سطح پر اسے سابق وزیر اعظم نواز شریف نے دوہزارسولہ میں غریبوں کیلئے صحت کی سکیم کے طور پر شروع کیا تھا۔ تب اس کا عنوان ’وزیر اعظم کا قومی صحت پروگرام‘ تھا۔ اِس کے تحت اسلام آباد‘ پنجاب اور بلوچستان کے غریب خاندانوں کیلئے ہسپتال میں داخلے کی صورت میں مالی تحفظ فراہم کیا جاتا تھا۔ دوہزاراٹھارہ میں پی ٹی آئی نے وفاقی حکومت تشکیل دی۔ سندھ کو پیپلزپارٹی چلا رہی تھی جس نے صحت انصاف پروگرام کا حصہ بننے سے انکار کردیا۔ سیاست کا یہ المیہ ہے کہ صوبائی حکومت نے صرف سیاسی اختلاف کی وجہ سے سندھ کی ایک بڑی آبادی کیلئے ہیلتھ انشورنس سے انکار کر دیا۔ امید ہے کہ مسلم لیگ نواز صحت کارڈ منصوبے کو جاری رکھے گی اور اِسے توسیع دی جائے گی کیونکہ اب سندھ کی سیاسی قیادت وفاقی میں مخلوط حکومت کا حصہ ہے۔ بعض اوقات حکومتیں سیاسی دشمنی کی وجہ سے اصلاحات ختم کر دیتی ہیں۔

یہ کالم میری تحریر پاکستان میڈیکل کونسل اور ہائر ایجوکیشن کمیشن میں اصلاحات کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ جلد یا بدیر حکام کی توجہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ اور میڈیکل ٹیچنگ انسٹی ٹیوشنز ریفارم ایکٹ اور صحت کے مختلف ریگولیٹری حکام کی تشکیل سمیت کچھ دیگر ادارہ جاتی اصلاحات کی طرف مبذول ہوسکتی ہے لیکن مذکورہ شعبوں میں کی گئیں اصلاحات کے عمل کو صرف اس لئے الٹنا غلطی ہوگی کہ یہ تحریک انصاف حکومت نے متعارف کروائی تھیں اور کوئی بھی تبدیلی کرنے سے پہلے ایک مناسب معروضی تشخیص ہونی چاہئے۔ قوی امید ہے کہ نئی مخلوط حکومت ملک میں بنیادی صحت کی دیکھ بھال کے نظام کو جاری رکھتے ہوئے اِسے مستحکم کرنے کیلئے خصوصی کوششیں کرے گی۔ یہی وہ مقام ہے جہاں مسائل حل اور مسائل پیدا ہوسکتے ہیں اور یہی وہ جگہ ہے جہاں بنیادی صحت کی دیکھ بھال یقینی بنانے کیلئے حقیقی حل موجود ہے جسے خاطرخواہ توجہ کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی قریب 70فیصد آبادی کو علاج کی خدمات مفت فراہم کی جاسکتی ہیں۔ اگر بنیادی صحت کے نظام کو مضبوط بنایا جاتا ہے اور اس کے معیار کو یقینی بنایا جاتا ہے تو اس سے تیسرے درجے کے ہسپتالوں سے بوجھ ختم ہو جائے گا جو اس وقت مریضوں کے دباؤ میں ہیں۔ اس کے علاوہ یہ صحت کے اہم اشارئیوں کو بھی بلند کرے گا جو اس وقت انتہائی خراب ہیں۔ مضبوط بنیادی صحت کی دیکھ بھال کے بغیر ملک گیر صحت کی سہولیات کی فراہمی ممکن نہیں ہے۔ (مضمون نگار عالمی ادارہ صحت کے مشیر ہیں۔