چھ دن پہلے انہوں نے پارلیمنٹ میں اکثریت کی حمایت حاصل کی۔ گیارہ اپریل کو انہوں نے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔ اپنی تقریر میں انہوں نے تمام اہم مسائل کا ذکر کیا۔ افراط زر کا خوف‘ ریکارڈ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اور قومی قرضے۔ پھر راحت کا ذکر ہوا۔ اُن کی تقریر میں پیغام واضح اور مثبت تھا کہ یہ تقریر عوام یعنی حقیقی پاکستانیوں کے بارے میں تھی۔ انہوں نے کہا کہ ہم عوام کی خدمت کیلئے آئے ہیں اور کوئی لمحہ ضائع نہیں ہونا چاہئے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کے رہنما اصول یہ ہوں گے ایمانداری‘ شفافیت‘ محنت اور مزید محنت۔ وزیراعظم بننے کے بعد انہوں نے جس پہلے سفیر سے ملاقات کی وہ عوامی جمہوریہ چین کا تھا۔ انہوں نے بھارت سے کہا کہ ”پاکستان پرامن اور تعاون پر مبنی تعلقات کا خواہش مند ہے۔“ انہوں نے امریکہ سے کہا کہ ”پاکستان تعمیری شراکت داری کی خواہش رکھتا ہے۔“ اِس صورتحال میں سرمایہ کاروں کو اچانک تازہ ہوا کا جھونکا محسوس ہوا جو امید کی کرن جیسا ہے۔
پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں 1700 پوائنٹس کا اضافہ‘ کیپٹلائزیشن 365ارب روپے یا 2 ارب ڈالر کا صحت مند اضافہ غیرمعمولی ہے۔ پاکستانی روپے کی قدر میں پانچ فیصد اضافہ بھی ہوا۔ پانچ روز قبل وہ پاکستان کے تجارتی مرکز کراچی آئے۔ مزار قائد پر وزیٹرز بک میں انہوں نے اپنے تاثرات لکھے ”خدام پاکستان اور ان کی ٹیم پاکستانیوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کیلئے محنت کرے گی۔“ چار روز قبل وہ صبح سات بجے اسلام آباد میٹرو بس سائٹ پہنچے اور حکام کو ہدایت کی وہ اسلام آباد کے بین الاقوامی ہوائی اڈے تک میٹرو بس سروس چلائیں۔ تین روز قبل انہوں نے بیساکھی کے موقع پر آنے والے سکھ زائرین کا خیرمقدم کیا اور پھر انہوں نے اپنی معاشی ٹیم کو ہدایت کی کہ وہ مہنگائی (افراط زر) کم کرنے کے لئے حکمت عملی وضع کریں۔ دو روز قبل انہوں نے ایف بی آر کے چیئرمین کو طلب کیا اور ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی قومی آمدنی (ریونیو) سے متعلق رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔
انہوں نے سعودی عرب کے ساتھ مل کر کام کرنے کا عزم بھی کیا تاکہ سٹریٹجک شراکت داری کے مشترکہ لائحہ عمل کو پورا کیا جاسکے۔ اُسی دن سیکرٹری خزانہ نے انہیں بریفنگ دی اور پھر انہوں نے پی ڈی ایم رہنماؤں کیلئے افطار ڈنر کا اہتمام کیا۔کیا سیاست میں ایسی کوئی مثال ملتی ہے؟ کیا کوئی منتظم اس سے زیادہ تجربہ کار‘ زیادہ مستحکم اور زیادہ باضمیر لگتا ہے؟ جی ہاں‘ یہ کرشمے سے زیادہ تدبیر ہے۔ ان کی مہارت کے سیٹ میں انتھک‘ عزم‘ ذہنی صلاحیت‘ جذبہ‘ جبلت‘ اہلیت اور ہمدردی شامل ہیں۔ جی ہاں‘ وہ گرم جوش‘ محتاط اور قابل فہم انسان ہے۔ جی ہاں‘ وہ مشکلات سے نمٹنے کا ماہر ہے۔ جی ہاں‘ وہ اپنے ماتحتوں پر کام کا بوجھ ڈالتا ہے اور پھر اُن کی کارکردگی پر نظر رکھتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ملک کے مشکل معاشی حالات میں وہ حکومتی پالیسیوں کا تعین کیسے کرے گا؟
صرف وقت ہی بتائے گا کہ کیا صحیح ہے اور وقت پر ہی صحیح فیصلہ کیا جائے گا؟ صرف وقت ہی بتائے گا کہ کیا وہ اپنے اتحادی شراکت داروں کو ساتھ چلنے پر قائل کر سکے گا؟ صرف وقت ہی بتائے گا۔ کیا وہ اپنے تصورات کو کامیابی کی کہانیوں میں تبدیل کر سکے گا؟ صرف وقت ہی بتائے گا۔ کیا وہ قوم کو نفس کے سامنے رکھے گا؟ صرف وقت ہی بتائے گا۔ کیا وہ سخت اور غیر مقبول فیصلے کر سکے گا؟ صرف وقت ہی بتائے گا۔ اُسے عوام کی نظروں میں مقبول اور ایماندار رہنے کی ضرورت ہے لیکن اس کے لئے جدوجہد اور عزم برقرار رکھنا پڑے گا۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)