انتخابات: مسئلے کا حل؟

بہت سے لوگ یہ دلیل دے رہے ہیں کہ ملک کے موجودہ سیاسی اور معاشی بحرانوں پر قابو پانے کیلئے پاکستان کو نئے عام انتخابات کی ضرورت ہے۔ سابق وزیر اعظم عمران خان بھی فوری طور پر نئے انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے اقتدار سے بے دخلی کے بعد سابق وزیر اعظم عمران خان نے دو واضح مقاصد کے حصول کیلئے عوامی مہم شروع کر رکھی ہے پہلا مقصد نئی تشکیل شدہ مخلوط حکومت پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنا ہے کہ وہ فوری طور پر نئے انتخابات کا مطالبہ کرے۔ وہ اس سیاسی مقصد کے حصول کیلئے کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار ہیں۔ عمران خان عوام میں پائی جانے والی ہمدردی کی لہر سے لطف اندوز ہو رہے ہیں اور قبل از وقت انتخابات اگر ہوتے ہیں تو اِس سے تحریک انصاف کو بھرپور فائدہ ہوگا۔ وہ غیرملکی سازشی بیانیے کو بھی امریکہ مخالف جذبات کو بھڑکانے کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔ وہ اپنے اِس سیاسی بیانیے کے گرد انتخابی مہم جاری رکھیں گے۔ عمران خان کا دوسرا مقصد نئی حکومت کو مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے استحکام اور قانونی حیثیت سے محروم کرنا ہے۔
 پی ٹی آئی اراکین اسمبلیوں سے مستعفی ہوئے ہیں جس سے سیاسی صورتحال مزید غیر مستحکم ہوئی ہے۔ نئی حکومت پر قبل ازوقت انتخابات کیلئے دباؤ برقرار رکھنے کیلئے سڑکوں پر احتجاج اور دباؤ کے دیگر ہتھکنڈے استعمال کئے جا رہے ہیں۔ پی ٹی آئی نے پہلے ہی قومی اسمبلی سے اپنے اراکین کے استعفوں کا اعلان کر دیا تھا اور (اب سابق) ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے ’پی ٹی آئی‘ کے 123 قانون سازوں کے استعفے قبول کئے جو پاکستان کی تاریخ میں کسی ایک دن مستعفی ہونے والے اراکین اسمبلی کی یہ ریکارڈ تعداد ہے لیکن اس بارے میں ابہام موجود ہے کہ آیا یہ استعفے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھیجے گئے ہیں یا نہیں تاکہ مستعفی ہونے والے اراکین کو ڈی نوٹیفائی کیا جاسکے۔ پی ٹی آئی مخلوط حکومت پر مزید دباؤ ڈالنے کیلئے پنجاب اسمبلی سے مستعفی بھی ہوسکتی ہے۔ سال دوہزاراٹھارہ کی طرح متنازعہ انتخابات سے سیاسی پولرائزیشن‘ عدم استحکام اور تصادم ختم کرنے میں مدد نہیں ملی۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن اگر وہ انتخابات ہار گئے تو کیا ہوگا؟
پاکستان کو نہ صرف نئے انتخابات بلکہ ایسے عام انتخابات کی ضرورت ہے جس پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔ ہمیں آزادانہ‘ منصفانہ اور شفاف عام انتخابات چاہیئں اور وہ بھی کسی مداخلت اور انتخابات سے قبل دھاندلی‘ سیاسی انجینئرنگ اور ہیرا پھیری کے بغیر۔ اس طرح کے انتخابات سیاسی تصادم اور پولرائزیشن پر قابو پانے میں مدد گار ہو سکتے ہیں لیکن اگر انتخابی نتائج متنازعہ ہو جاتے ہیں اور ہارنے والی جماعت شکست قبول کرنے سے انکار کر دیتی ہے تو مزید تصادم اور عدم استحکام پیدا ہوگا۔ ایک پختہ اور مستحکم جمہوری معاشرے میں نئے انتخابات نئی حکومت کے قیام سے سیاسی بحران کو حل کر سکتے ہیں لیکن ہمارے جیسے ممالک میں جہاں انتخابی نتائج کو واقعی کبھی قبول نہیں کیا گیا ہے ہارنے والا فریق ہمیشہ اختلاف کرتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں بدقسمتی سے ہم عوام اور سیاسی قائدین شکست قبول کرنے کی جمہوری روایت اور ثقافت کو فروغ نہیں دے سکے ہیں۔ جب پی ٹی آئی برسراقتدار تھی تو اپوزیشن سیاسی تصادم اور پولرائزیشن کے خاتمے کیلئے نئے انتخابات کا مطالبہ کرتی تھی لیکن اب وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت ملے جلے اشارے بھیج رہی ہے۔ حکومت بنانے سے قبل مسلم لیگ نواز‘ پیپلزپارٹی‘ جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن اور دیگر جماعتوں کے رہنما کہہ رہے تھے کہ وہ انتخابی قوانین میں اصلاحات کے بعد انتخابات کرانا چاہتے ہیں۔
 انہیں اس سال نومبر میں قبل از وقت انتخابات کے اپنے وعدے پر قائم رہنا چاہئے۔ موجودہ صورتحال میں حکمراں اتحاد کیلئے بہترین آپشن یہ ہے کہ وہ انتخابی اصلاحات لے کر آئے اور رواں سال نومبر میں نئے انتخابات کا اعلان کرنے سے پہلے ایک مقبول بجٹ پیش کریں۔ انتخابات میں تاخیر سے مخلوط حکومت کو مدد نہیں مل سکتی۔ اس کی توجہ عوام کیلئے زیادہ سے زیادہ راحت کے ساتھ متوازن بجٹ منظور کرنے پر ہونی چاہئے۔ عوام بڑھتی ہوئی افراط زر سے فوری ریلیف چاہتے ہیں۔ وہ ایک مایوس کن صورتحال میں ہیں۔ اگر نئی حکومت یہ ریلیف فراہم کرنے اور قیمتوں میں کمی لانے میں ناکام رہی تو  اسے مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے۔ دوسری طرف آئی ایم ایف پروگرام لوگوں کو ریلیف فراہم کرنے کی صلاحیت کو محدود کر دے گا اور اگر ایسا ہوا تو مخلوط حکومت معاشی صورتحال کو مستحکم کرنے کیلئے درکار سخت اور طویل مدتی فیصلے لینے کی پوزیشن میں نہیں رہے گی۔ شہباز شریف کی قیادت والی حکومت جتنی دیر اقتدار میں رہے گی اتنا ہی زیادہ امکان ہے کہ ملک کو درپیش معاشی بحرانوں کا الزام اِس سے منسوب ہو جائے۔ حکومت کو معیشت مستحکم کرنے کیلئے قلیل اور وسط مدتی اقتصادی اقدامات و اصلاحات پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: خالد بھٹی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)