پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کیلئے ارسال کردہ ”آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا)“ کی تجویز (سمری) مسترد کی گئی ہے اور اِس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے سیاسی فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سابقہ حکومت کے امدادی پیکج کی توثیق بھی کر دی ہے کہ اُسے جاری رکھا جائے گا۔ توجہ طلب ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے یکم مئی تک پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تبدیلی نہ رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جو اِس لحاظ سے آسان فیصلہ ہے کیونکہ ابھی حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان باضابطہ مذاکرات شروع ہونا باقی ہے اور جب تک مذاکرات نہیں ہوتے اُس وقت تک عوام کو ”بنا کسی خوف“ ریلیف دیا جا سکتا ہے۔ ملک میں سیاسی غیر یقینی کی صورتحال طاری ہے جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔ گزشتہ ہفتے پنجاب اسمبلی میں رونما ہوئے ناخوشگوار واقعات نے اس غیر یقینی صورتحال میں مزید اضافہ کر دیا ہے جو ابھی ختم ہونے سے بہت دور نظر آتی ہے اور ممکنہ طور پر ’آئی ایم ایف‘ کے ساتھ مذاکرات پر اثر انداز ہوگی۔ کوئی نہیں جانتا کہ اتحادی حکومت اگست دوہزارتیئس تک اپنی بقیہ مدت پوری کرے گی یا قبل از وقت انتخابات پر مجبور ہوگی۔ بنیادی بات یہ ہے کہ حکومت کی بقیہ آئینی مدت کے بارے میں وضاحت سے آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی میں مدد ملے گی۔ اگر حکومت اگلے پندرہ ماہ تک اقتدار میں رہنا چاہتی ہے تو اس کا مقصد آئی ایم ایف کی حمایت حاصل کرنا ہوگا تاہم اگر وہ قبل از وقت انتخابات کی منصوبہ بندی کر رہی ہے تو ایسی صورت میں اس کی توجہ عوام میں اپنی مقبولیت بڑھانے پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی اور اگلے انتخابات کے بعد کئے جانے والے سخت فیصلے چھوڑنا ہوں گے۔ بہر صورت‘ جو بھی اگلے عام انتخابات کے بعد حکومت بناتا ہے
اسے آئی ایم ایف سمیت بین الاقوامی قرض دہندگان کی سخت شرائط کا سامنا کرنے کیلئے تیار رہنا چاہئے۔ ایک انتہائی پولرائزڈ سیاسی ماحول میں سیاسی جماعتوں کو محتاط رہنا چاہئے کہ وہ کم سے کم قومی معیشت سے متعلق امور پر سیاست نہ کریں۔ ایک بار حکومت میں آنے کے بعد حکمراں جماعتیں وہی اقدامات کرتی ہیں (تقریبا ہر محاذ پر بلکہ خاص طور پر معاشی محاذ پر) جن کی وہ اپوزیشن بینچوں پر بیٹھے ہوئے شدید مخالفت کر چکی ہوتی ہیں۔ پاکستان کی تین بڑی سیاسی جماعتیں اقتدار میں رہتے ہوئے آئی ایم ایف کے پاس گئیں اور انہوں نے آئی ایم ایف کے آخری تین پیکجز سے فائدہ اٹھایا۔ جون دوہزاراُنیس میں پی ٹی آئی کے مشیر خزانہ حافظ شیخ اور گورنر سٹیٹ بینک (جی ایس بی) رضا باقر کے تحریر کردہ آخری تین آئی ایم ایف پروگراموں کیلئے قرض کی درخواستوں اور اصلاحی اقدامات پر اتفاق کیا گیا۔ اصلاحات کے بارے میں اپنی سنجیدگی ظاہر کرنے کیلئے ان کے ذریعہ کئے گئے پیشگی اقدامات بھی بالکل مماثل ہیں۔ پیپلزپارٹی حکومت نے رعایت کی شرح میں دو فیصد‘ بجلی کے نرخوں میں اٹھارہ فیصد اضافہ کیا اور خزانہ بلوں کا صرف پہلے سے طے شدہ حجم جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔ نواز لیگ حکومت نے ٹیرف ڈفرینشل سبسڈی (ٹی ڈی ایس) ختم کی‘ زرمبادلہ سپاٹ مارکیٹ میں ایک سو پچیس ملین ڈالر خریدے۔ دوہزارتیرہ کے وفاقی بجٹ میں مالی ایڈجسٹمنٹ کے اقدامات کئے اور ممکنہ ٹیکس چوروں کو دس ہزار نوٹسیز جاری کئے۔ اسی طرح تحریک انصاف حکومت کے پیشگی اقدامات میں بجلی کے شعبے میں سہ ماہی خودکار ٹیرف ایڈجسٹمنٹ اور مالی سال دوہزاربیس کے گیس ٹیرف کو مستقل رکھا اور دوہزاربیس کے وفاقی بجٹ میں مالی اصلاحات کیں لیکن آئی ایم ایف قرضوں کی آخری قسط جاری کرنے کیلئے منی بجٹ کے ذریعے جی ایس ٹی کی دی گئی
چھوٹ واپس لے لی اور متعلقہ قانون میں ترمیم کرکے اسٹیٹ بینک کو خود مختاری بھی دی گئی۔ ملک کے معاشی چیلنجوں کی مشترکہ بنیادی وجوہات سے نمٹنے کیلئے تینوں پروگراموں میں طے پانے والے اختتامی اہداف (ڈھانچہ جاتی معیارات) ایک جیسے ہیں۔ میکرو اکنامک استحکام کے حصول کیلئے پیپلزپارٹی حکومت نے ٹیکس اصلاحات اور عام سیلز ٹیکس ہم آہنگی لانے کا عہد کیا تھا۔ اس نے انٹر کارپوریٹ سرکلر ڈیٹ کا انتظام کرنے‘ ٹی ڈی ایس کے خاتمے کے لئے بجلی کے نرخوں میں اضافے اور فرنس آئل خریدنے کیلئے سٹیٹ بینک پر دباؤ ختم کیا۔ نواز لیگ نے پیپلزپارٹی کی قیادت میں ڈھانچہ جاتی اصلاحات کی مخالفت کے باوجود اپنے آئی ایم ایف پروگرام کے تحت اسی طرح کی اصلاحات کا عزم ظاہر کیا۔ اس نے آمدنی بڑھانے کیلئے گیس کی قیمتوں کا نیا منصوبہ متعارف کرانے‘ سٹیٹ بینک کو خود مختاری دینے‘ ایس او ایز کے نقصانات کم کرنے‘ تکنیکی اور مالی آڈٹ کے بعد توانائی کے سرکلر قرضوں کو چھانٹنے‘ ایس آر اوز کے ذریعے دی جانے والی چھوٹ اور رعایتیں ختم کرنے‘ ٹیکس چوروں کا پیچھا اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں میں ریونیو پر مبنی لوڈ شیڈنگ شروع کرنے کا وعدہ کیا۔ پی پی پی اور پی ٹی آئی کی ڈھانچہ جاتی اصلاحات قابل ذکر ہیں۔ ستمبر دوہزارسولہ میں آئی ایم ایف کے پروگرام کو کامیابی سے مکمل کیا گیا۔تحریک انصاف حکومت نے آئی ایم ایف کے پاس جانے سے گریز کرتے ہوئے اپنا پہلا سال ضائع کیا اور دوست ممالک کی مدد سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے سے نمٹنے کی کوشش کی تاہم دوستوں کی جانب سے مالیاتی امداد ضروری ڈھانچہ جاتی اصلاحات کا متبادل ثابت نہیں ہو سکتیں۔ معاشی مشکلات مزید خراب ہوتی چلی گئیں اور پی ٹی آئی حکومت کو دوہزاراُنیس میں مزید ٹیکس معافیاں نہ دینے‘ انٹی منی لانڈرنگ و انسداد دہشت گردی فنانسنگ قوانین کو بہتر بنانے‘ سٹیٹ بینک کی خود مختاری‘ ایس او ایز کی بہتری اور سماجی تحفظ کے نظام کو مضبوط بنانے کے عزم کے ساتھ آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا۔
پی ٹی آئی دور میں آئی ایم ایف پروگرام ابھی شروع ہی ہوا تھا کہ کورونا وبا نے اس پر عمل درآمد روک دیا۔ جس پر گزشتہ سال دوبارہ عمل درآمد شروع کیا گیا لیکن اسے خاص طور پر توانائی کی قیمتوں میں اضافے‘ جی ایس ٹی کی چھوٹ واپس لینے اور سٹیٹ بینک کو خود مختاری دینے پر حزب اختلاف کی دونوں بڑی جماعتوں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ پاکستان کے معاشی چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے ”اقتصادی سلامتی کونسل“ تشکیل دی جا سکتی ہے جس کے اراکین میں سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اراکین شامل ہونے چاہئیں۔ مثال کے طور پر کونسل میں پی ٹی آئی سے شوکت ترین اور شبلی فراز‘ پیپلزپارٹی سے سلیم مانڈوی والا اور نوید قمر‘ عائشہ گھواس اور مصدیق ملک میں سے کوئی بھی‘ شاہد خاقان عباسی‘ خواجہ آصف‘ خرم دستگیر یا احسن اقبال مسلم لیگ نواز سے شامل ہو سکتے ہیں۔ کونسل کو معاشی چیلنجوں پر غور کرنا چاہئے اور آئی ایم ایف پروگرام کے ساتھ یا اس کے بغیر انتہائی ضروری پالیسی اور ڈھانچہ جاتی اصلاحات کی اجتماعی ذمہ داری اُٹھانی چاہئے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ عوام کو اس طرح کی اصلاحات کے اثرات سے بچانے کے لئے ممکنہ امدادی اقدامات پر بھی اتفاق رائے پیدا ہو اور موجودہ سماجی تحفظ کے منصوبوں کو جاری رکھا جائے۔اقتصادی سلامتی کونسل کی صورت معاشی بہتری کیلئے پارلیمنٹ اپنا کماحقہ کردار ادا کر سکتی ہے۔ معاشی اور سیاسی غیر یقینی کی صورتحال کے دوران پاکستان کے ترقیاتی شراکت دار (سیاسی جماعتیں مل کر) عوام کو اِس بات کا انتہائی ضروری یقین فراہم کر سکتی ہیں کہ آنے والے دن بہتر ہوں گے۔ کسی بھی معیشت کا استحکام تب ہی وجود میں آتا ہے جب اس کے حوالے سے پالیسیوں میں تسلسل ہو اور موجودہ ملکی حالات کو دیکھتے ہوئے اس کی ضرورت کہیں زیادہ محسوس ہو رہی ہے کہ بدلتی حکومتوں کے ساتھ معاشی پالیسیوں کی تبدیلی سے نہ صرف مقامی صنعت کار اور سرمایہ کار متاثر ہوتے ہیں بلکہ غیر ملکی سرمایہ کار بھی سرمایہ لگاتے ہوئے ہچکچاتے ہیں اس ضروری ہے کہ حکومت بدلنے کے ساتھ معاشی پالیسیاں ایک تسلسل کے ساتھ جاری رہیں تاکہ ان کے ثمرات سامنے آسکیں۔