اُنیس رمضان المبارک‘ فجر کی نماز اَدا کرتے ہوئے زیرمحراب خلیفہئ راشد‘ اَمیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم پر تیزدھار اور زہر آلود آلے سے وار کیا گیا۔ سر پر شدید ضرب لگی اور اُن کے ماتھے سے خون کی دھاریں بہہ رہی تھیں تو اُن کے منہ سے فوراً یہ الفاظ نکلے ”فوزت و رب الکعبہ“ (رب ِکعبہ کی قسم‘ میں کامیاب ہو گیا)۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے عزیزواقارب اُن کے آس پاس جمع ہو گئے اور ہر کسی کی کوشش تھی کہ اُنہیں راحت پہنچائے۔ زخم کی شدت اور خون کی روانی دیکھ کر واضح تھا کہ حضرت علیؓ جانبر نہیں ہو سکیں گے اور اِس طرح عالم اسلام کی ایک ایسی مشہور شخصیت کی زندگی کا خاتمہ ہوا جو علم و عمل میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب ترین اور رشتے میں آپ کے داماد یعنی حضرت بی بی فاطمہ الزہرا (رضی اللہ عنہا) کے شوہر کے طور پر قابل احترام سمجھے جاتے تھے۔ حضرت علیؓ کی شہادت کو کامل چودہ سو سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن اسلامی معاشرے پر اُن کی شخصیت کے پائیدار اثر و رسوخ کو باآسانی دیکھا جا سکتا ہے۔
امیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی شہادت (برسی) کی مناسبت سے پورے عالم اسلام اور جہاں جہاں مسلمان آباد ہیں وہاں تین روزہ سالانہ یادآوری کی محافل کا انعقاد کل سے یعنی اُنیس رمضان 21 اپریل 2022ء بروز جمعرات سے بروز ہفتہ اکیس رمضان تک جاری رہیں گی‘ جب زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اُن کی شہادت ہوئی۔ حضرت علیؓ کی شہادت کے موقع پر سوگوار اُن سے وابستہ تاریخی مقامات کا دورہ کرتے ہیں بالخصوص اِس موقع پر عراق کے شہر کوفہ کی اُس مسجد میں بڑا اجتماع ہوتا ہے جسے مسجد ِکوفہ کہا جاتا ہے اور اِس مسجد سے ملحق آپ کا آستانہئ عالیہ در دولت بھی واقع تھا اور عراق کے روحانی شہر نجف اشرف میں حضرت علیؓ کی آخری آرام گاہ (مزار پرانوار) ہے۔ حضرت علی خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے اور آپ کی شہادت مسجد میں ہوئی جبکہ آپؓ کی پوری زندگی دیگر صحابہ کرام اجمعین کی طرح اسلام کی بے لوث خدمت اور قربانیوں میں بسر ہوئی۔ حضرت علیؓ اسلامی تاریخ کے سب سے زیادہ بہادر اور دانشمند تھے جبکہ آپ کی شخصیت کو سمجھنے کیلئے کسی ایک پہلو سے وضاحت کافی نہیں ہوتی۔
اپنے عہد کے اہم سیاسی معاملات پر ان کے کچھ خطبات‘ خطوط اور رہنما خطوط ”نہج البلاغہ“ نامی کتاب میں جمع کئے گئے ہیں جو جو ایک جامع کتاب ہے اور اِس کے ذریعے حضرت علیؓ کی زندگی‘ آپؓ کی تعلیمات اور علمی مرتبے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ معروف مسلمان عالم دین یوسف این لالجی نے ”علی دی میگنیفیسٹ“ نامی مشہور زمانہ کتاب میں لکھا ہے ”زمین پر اللہ تعالیٰ کی بادشاہت قائم کرنے کی کوشش میں حضرت علی مسلسل دشمنوں سے گھرے رہے۔ یہ دشمن اسلام کی مشعل بجھانا چاہتے تھے جبکہ حضرت علیؓ (اور آپ کی اولاد) آخری دم تک دین کی محافظ رہی۔“ معروف لبنانی عیسائی عالم جارج جورڈیک نے اپنی شہرہئ آفاق کتاب ”دی وائس آف ہیومن جسٹس اے بائیوگرافی آف امام علی ؓ“ میں حضرت علیؓ کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ”حضرت علیؓ کی پوری زندگی مظلوموں اور بے بسوں کی حمایت کیلئے وقف تھی‘ آپ مظلوموں کے حقوق کا تحفظ کرتے رہے۔
آپؓ کی پوری زندگی درحقیقت اسلام کی سربلندی‘ مسلمانوں کے عروج و خوشحالی کیلئے ایک مسلسل جدوجہد کا مجموعہ دکھائی دیتی ہے۔“حضرت علیؓ اپنی دانش مندی کے علاوہ غیر معمولی جرأت و بہادری کی وجہ سے بھی جانے جاتے ہیں۔ خاص طور پر خیبر کا قلعہ آپؓ کے دست مبارک سے فتح ہوا جو مدینہ کے قریب یہودی قبائل کا مرکز تھا اور مالی طور پر مستحکم یہودی طاقت کے اِس مرکز کی حفاظت کیلئے اُس وقت کے ہر ممکنہ وسائل دستیاب تھے جن کا مسلمانوں نے اپنے بے سروسامانی کے باوجود ’قوت ِایمانی‘ اور ’یقین ِایمانی‘ سے کیا۔ خیبر کے قلعہ کا محاصرہ کئی روز تک جاری رہا اور اِس دوران مسلمانوں کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔
بالآخر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علیؓ کو طلب کیا۔ جنہوں نے دیکھتے ہی دیکھتے اور ایک ہی حملے میں خیبر کا ناقابل تسخیر قلعہ فتح کر لیا اور اِسی وجہ سے حضرت علیؓ کا ایک لقب ”فاتح خیبر“ بھی ہے۔ آپ کا ایک اور اعزاز ہجرت کے موقع پر پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بستر پر نیند تھی تاکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم درپئے آزار کفار کی نظروں سے بچ کر بحفاظت مدینہ پہنچ سکیں۔ حضرت علیؓ شمع رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پروانہ تھے اُن کی جامع شخصیت کا بغور مطالعہ اور نئی نسل کو حضرت علیؓ سے زیادہ گہرائی سے روشناس کرانے کی ضرورت ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: فرحان بخاری۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)