درپیش معاشی مسائل

غیر ملکی ریٹنگ ایجنسی فِچ  کے مطابق پاکستان کو قلیل مدت میں بیرونی مالیاتی خطرات کا سامنا ہے اور اس خطرے میں عالمی سطح پر اجناس کی قیمتوں میں اضافہ صورتحال کو مزید پیچیدہ اور مشکل بنا رہا ہے۔ نئی حکومت کیلئے اہم یہ ہے کہ وہ کس طرح موجودہ اور آئندہ مالی سال کے دوران واجب الادا قرضوں کو ری فنانس کرسکے اور نئے قرض بھی حاصل کرسکے۔تحریک عدم اعتماد پیش ہونے سے قبل سٹیٹ بینک کے زرِمبادلہ ذخائر 16 ارب 21 کروڑ ڈالر تھے جو یکم اپریل تک 11 ارب 31 کروڑ ڈالر رہ گئے۔ اس طرح سیاسی عدم استحکام کے مہینے میں زرِمبادلہ ذخائر 4 ارب 89 کروڑ ڈالر کم ہوگئے  ہیں، یعنی یہ چیلنج بھی اپنی جگہ موجود ہے۔فِچ کے مطابق آئندہ مالی سال کے دوران پاکستان کو 20 ارب ڈالر کی ادائیگی کرنا ہوگی، جس میں سے سعودی عرب اور چینی قرض کے 7 ارب ڈالر بھی شامل ہیں لیکن توقع ہے کہ اس قرض کی تجدید ہوجائے گی۔ فروری سے یکم اپریل کے دوران غیر ملکی زرِمبادلہ ذخائر میں 5 ارب ڈالر کی کمی ہوچکی ہے۔ اس میں چین کے 2 ارب 40 کروڑ ڈالر کا قرض بھی واپس کیا گیا ہے اور یہ قرض دوبارہ ملنے کے امکانات موجود ہیں۔تاہم پاکستان کو اپنے قرضوں کی ادائیگی کیلئے عالمی مالیاتی مارکیٹ سے بڑے پیمانے پر قرض حاصل کرنا ہوگا۔ سابقہ حکومت نے جنوری 2022 میں ایک ارب ڈالر کا صکوک جاری کیا تھا۔ نئی حکومت کے لیے بجلی کے شعبے میں اصلاحات سب سے بڑ اچیلنج ہوگا کیونکہ مہنگی بجلی کی وجہ سے عوام پہلے ہی پریشان ہے اور عالمی سطح پر ایندھن مہنگا ہونے کی وجہ سے ہر مہینے بلوں میں اضافی ادائیگی کرنا پڑ رہی ہے۔ بجلی کے شعبے میں موجود گردشی قرضہ حکومت کیلئے سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ قرض تقریبا ً2500 ارب روپے سے تجاوز کرچکا ہے۔عالمی سطح پر ایندھن اور دیگر اجناس کے مہنگا ہونے سے پاکستان کو مشکلات کا سامنا ہے۔ عالمی سطح پر ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ ملک کے جاری کھاتوں کے خسارے میں اضافے کا سبب بنے گا جبکہ ملک کو بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کے لیے بڑے پیمانے پر زرِمبادلہ کی ضرورت ہے۔آئی ایم ایف کے مطابق گزشتہ سال غذائی اجناس کی قیمتوں میں 23.1 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا تھا اور اس اضافے کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ گندم کے موجودہ سیزن میں بمپر فصل کی توقع ہے اور عالمی سطح پر گندم کی مہنگائی سے پاکستان کو خلیجی ملکوں میں آٹے اور دیگر مصنوعات کو برآمد کرنے کے اچھے مواقع دیکھے جارہے ہیں دوسری جانب مہنگائی، ملکی مالیات، زرِمبادلہ ذخائر، بیرونی قرضوں کی ادائیگی جیسے اہم مسائل بھی نئی حکومت کے سامنے ہیں۔ماہرین کا خیال ہے کہ اگر آئی ایم ایف سے مذاکرات میں نئی حکومت کو کچھ رعایت ملتی ہے اور چین کی جانب سے سی پیک کو بحال کردیا جاتا ہے تو پھر پاکستان اس قلیل مدت کے معاشی بحران پر قابو پاسکتا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ موجودہ حکومت معاشی میدان میں بھی اسی طرح کامیاب ہوسکتی ہے یا نہیں جیسا وہ تحریک عدم اعتماد کو منظور کروانے میں کامیاب ہوئی تھی۔(بشکریہ ڈان،تحریر:راجہ کامران،ترجمہ: ابوالحسن امام)