ہمارے مقبولِ عام ادب میں پاکستان کے شہری علاقوں کی حکومت اور وہاں کے انتظام و انصرام کے حوالے سے بہت کچھ موجود ہے تاہم دُور افتادہ علاقوں کے حالات کا ذکر بہت کم ملتا ہے۔ ان علاقوں کو بس اس وقت ہی توجہ ملتی ہے جب کسی اہم منصب پر موجود کوئی شخص ان کے بارے میں کچھ تحریر کرے۔ اسی وجہ سے یہ بات قابلِ ستائش ہے کہ شکیل درانی نے اپنی کتاب ”فرنٹیئر سٹیشنز (Frontier Stations)“ کے ذریعے پاکستان کے دور افتادہ علاقوں کے تجربات بیان کئے ہیں۔ شکیل درانی اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے ہیں اور بطور ’سول سرونٹ‘ اُنہوں نے کئی اہم انتظامی ذمہ داریاں خوش اسلوبی سے ادا کی ہیں۔ مذکورہ کتاب کو کسی سرکاری ملازم کی زبانی بیان کردہ اندرونی کہانی‘ یادداشت‘ خود نوشت یا پھر پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروسز کے بارے میں ایک مجموعہ کہہ سکتے ہیں۔ پانچ حصوں پر مشتمل یہ کتاب بہت ہی عمدگی سے لکھی گئی ہے اور اس کی ادارت بھی اتنی ہی کمال ہے۔ کتاب کا پہلا حصہ تو مصنف کی ابتدائی تعلیم و تعلیمی ادارے اور کالج کے دنوں‘ کچھ محبوب شخصیات اور پھر اپنے کیریئر کے آغاز کے حوالے سے کئے گئے تذکرے سے ہے‘ جس میں انہوں نے گلگت بلتستان‘ آزاد جموں و کشمیر‘ خیبر پختونخوا اور سندھ میں بطور چیف سیکرٹری کی حیثیت سے ادوار کا ذکر کیا ہے۔ کتاب کا ایک باب سرحدی علاقوں کی کہانیوں کے لئے مخصوص کیا گیا ہے۔ مصنف نے یہاں آفریدی برادران کا ذکر کیا ہے۔ ان دو بہادر بھائیوں کو دو متحارب ممالک کی جانب سے بہادری کے عسکری انعامات دیئے گئے تھے۔ ان میں سے ایک بھائی کو جرمنوں کی جانب سے مارچ 1915ء میں ”آئرن کراس“ دیا گیا تو ایک ماہ بعد دوسرے بھائی کو انگریزوں کی جانب سے ”وکٹوریا کراس“ دیا گیا‘ جو خاصا دلچسپ ہے۔ اس کے علاوہ ایک باب میں ”پشتون ولی“ کو بھی مفصل بیان کیا گیا ہے اور اس کے اہم پہلوؤں کا ذکر کیا ہے۔ اس باب میں موجود کہانیاں ہمیں اس متنازع اور دشوار گزار علاقے کے بارے میں بتاتی ہیں جہاں حکومت کرنا ہمیشہ سے ہی مشکل رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ علاقہ اپنے جغرافیے کی وجہ سے تاریخ میں سرحدی علاقہ رہا ہے۔ مصنف نے تفصیل کے ساتھ ان مشکلات اور رکاوٹوں کا ذکر کیا ہے جو ماضی کے وفاق کے زیرانتظام علاقوں (فاٹا) میں ریاستی رٹ ختم کرنے کی وجہ بنیں اور یہ بھی بتایا ہے کہ ریاست کو اپنی رٹ بحال کرنے میں کیوں مشکل پیش آئی۔ کتاب کے دوسرے حصے کا عنوان ”رومینس آف فرنٹیئر“ ہے جس میں چترال‘ سوات‘ دیر اور مالاکنڈ ایجنسی جیسی سابقہ ریاستوں اور سابقہ قبائلی علاقوں پر بات کی گئی ہے۔ کتاب کا یہ حصہ ہمیں قبائلی علاقوں کے ماضی میں لے جاتا ہے۔ اس میں وہاں جانے والے افراد اور نامی گرامی شخصیات کا ذکر ہے، اس میں قبائلی لوگوں اور ان کے عزائم کے بارے میں بتایا گیا ہے‘ اس باب میں قبیلے کا ادارے کی حیثیت سے ذکر ملتا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ یہ تصور اور اِس کی عملی اشکال اپنی ذات میں اس قدر پیچیدہ کیوں ہیں۔ مذکورہ باب میں تجزیہ کیا گیا ہے کہ آخر کیوں ان علاقوں کو ”بفرزون“ سمجھا جاتا تھا اور کس طرح ان پر فرنٹیئر کرائمز ریگولیشنز (ایف سی آر) جیسے قانونی ذرائع کے ذریعے حکومت کی جاتی رہی۔ انہوں نے خیبر پختونخوا میں سات قبائلی ایجنسیوں کے انضمام کی وجہ بھی بیان کی ہے۔ کتاب کے تیسرے حصے میں مصنف نے ماضی کے کچھ سرکاری افسران کی خدمات‘ اقدار‘ ایمانداری اور دیانتداری کو سراہتے ہوئے موجودہ دور میں گرتے ہوئے معیار پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں اور جنگلی حیات سے متعلق خدشات کا بھی کچھ یہی حال ہے۔ کتاب کے چوتھے حصے کا نام ”کریٹیکل ایشوز“ ہے۔ اس حصے میں مصنف نے قارئین کی توجہ پاکستان کے دُور دراز علاقوں میں خطرے سے دوچار جنگلی حیات کی طرف مبذول کروائی ہے۔ غیرقانونی شکار اور جنگلی حیات کے تحفظ کے حوالے سے لوگوں کی لاپرواہی نے مہشیر مچھلی اور مارخور کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ مصنف بتاتے ہیں کہ انہوں نے 1993ء میں ”ٹرافی ہنٹنگ پروگرام“ کا آغاز کیا تھا‘ جس کے تحت جنگلی حیات کے شکار کو ریگولیٹ کیا جانا تھا۔ اس سے جانوروں کی آبادی میں اضافہ مقصود تھا۔ پاکستان کو لاکھوں کی آمدنی ہوتی اور مقامی لوگوں کیلئے روزگار کا باعزت ذریعہ بھی پیدا کرنا تھا چونکہ مصنف چیئرمین واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) بھی رہے ہیں اس وجہ سے انہوں نے پانی اور بجلی سے متعلق مسائل کے حوالے سے اپنے تجربات بھی بیان کئے ہیں۔ مصنف نے اس شعبے کے بہتر انتظام کے حوالے سے بھی کچھ مشورے دیئے ہیں۔ ماحولیات کی تباہی بھی ایک اور انتہائی اہم مسئلہ ہے جس کے بارے میں کوئی فکر نہیں کرتا۔ استعمال اراضی کی منصوبہ بندی کی بھی اشد ضرورت ہے۔سرکاری ملازم کے طور پر اپنے تجربے کو بیان کرتے ہوئے مصنف نے اس کی پیچیدگیوں کا ذکر بھی بطور خاص کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ زبردست سیاسی دباؤ میں اپنے پیشہ وارانہ فرائض کی انجام دہی شیشے کے گھر میں رہنے کے مترادف ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کوئی اس کتاب کو اشرافیہ کے استثنیٰ کی کہانی کہے لیکن یہ مقبول تاریخ بھی ہے۔ معلومات کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے مقبول تاریخ عموماً اس بات کا جواب نہیں دیتی کہ ماضی میں جو کچھ بھی ہوا وہ کیوں ہوا۔ اس کے برعکس صرف اثرات پر مبنی وضاحتیں پیش کی جاتی ہیں۔ یہ ماہرین کا کام ہے کہ وہ اس کتاب کو ایک ماخذ کے طور پر دیکھیں اور پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروسز میں بعد میں ہونے والی پیشرفت کو سمجھنے کیلئے اِس سے بطور حوالہ استفادہ کیا جائے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: سہیل اختر۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
سرمائے کا کرشمہ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
سائبرسکیورٹی: نئے محاذ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام