ملک کے وزیراعظم ہونے کا مطلب ملک کو لائحہ عمل (پالیسی) دینا ہوتا ہے۔ کسی صوبے کے وزیراعلیٰ ہونے کا مطلب ترقیاتی منصوبے (پراجیکٹس) دینا ہوتے ہیں۔ پالیسی کا مطلب ہوتا ہے وزیراعظم کی جانب سے ترقیاتی اصلاحات یا اقدامات تجویز کرنا یا لائحہ عمل تجویز کرنا اور کوئی منصوبہ کس طرح ایک خاص وقت میں مکمل ہوگا۔ وزیراعظم پالیسی ساز ہوتا ہے جس کے پاس خیالات ہوتے ہیں۔ منصوبوں کے تصورات ہوتے ہیں بالخصوص ایسے اقدامات جنہیں کرنے کی ذمہ داری حکومت کی ہوتی ہے۔ اِسی طرح وزیراعلیٰ کسی منصوبے یا منصوبوں کا نگران (پراجیکٹ منیجر) ہوتا ہے اور مختلف امور کی سمجھ بوجھ رکھنے والا ایک ایسا باصلاحیت شخص ہوتا ہے جو منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے جملہ مراحل سے آگاہ اور اِن کی راہ میں حائل مشکلات یا رکاوٹیں کچھ اِس طرح بروقت دور کرتا چلا جائے کہ منصوبے کی مجموعی لاگت پر اِس کا منفی اثر نہ پڑے۔ملک کی موجودہ صورتحال میں معروف سیاست (پاپولزم) کام نہیں کرے گی بلکہ اصلاحات کی ضرورت ہے۔
پاپولزم ایک ”سیاسی نقطہ نظر ہوتا ہے جو عام لوگوں میں مقبول ہونے کیلئے اپنایا جاتا ہے۔“ پاپولزم کبھی کام نہیں کرتا۔ ہمیں ڈھانچہ جاتی اصلاحات کی ضرورت رہتی ہے۔ ڈھانچہ جاتی اصلاحات کیا ہوتے ہیں؟ ”ایسے اقدامات ہیں جو معیشت کے تانے بانے کو تبدیل کریں۔“ ادارہ جاتی اور ریگولیٹری فریم ورک جس میں کاروباری سرگرمیاں بڑھتی ہیں اور روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ انہیں اس بات کو یقینی بنانے کیلئے ڈیزائن کیا جاتا ہے کہ معیشت درست سمت میں آگے بڑھ رہی ہے اور یہ متوازن طریقے سے ترقی کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔“وزیراعلیٰ خرچ کرتا ہے۔ وزیر اعظم وسائل متحرک کرتا ہے۔ وزیراعلیٰ کو بغیر کسی کوشش ہر سال نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ کے تحت تمام وفاقی محصولات کا ستاون فیصد حصہ ملتا ہے۔ وزیر اعظم کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ملک کے تین کھرب روپے کے قرضوں کی ادائیگی کے لئے وسائل جمع کرے۔
وزیراعظم کو ہر سال ملک کے دفاع کے لئے 1.4 کھرب روپے‘ سول حکومت کو پانچ سو ارب روپے‘ پینشن کی ادائیگی کے لئے پانچ سو ارب روپے‘ مختلف مدوں میں سبسڈی دینے کیلئے سات سو ارب روپے اور ایک کھرب روپے کی گرانٹ کا انتظام کرناہوتا ہے۔وزیراعلیٰ ”ون مین شو“ ہو سکتا ہے جبکہ وزیر اعظم ٹیم ورک کے طور پر کام کرتا ہے۔ ون مین شو ایک ایسی صورتحال ہوتی ہے جس پر کوئی ایک شخص ہر قسم کے فیصلے کرتا ہے اور اُسی کی رائے کو حتمی و غالب سمجھا جاتا ہے یا وزیراعلیٰ کی ہر رائے پر من و عن انحصار کیا جاتا ہے اِس کے مقابلے ٹیم ورک یہ ہوتا ہے کہ ”کسی مقصد کے حصول کیلئے مختلف گروہوں کے ساتھ مل کر کام کیا جائے اور ایک تصور کو عملی جامہ پہنایا جائے۔“ وزیراعلیٰ کا عہدہ ترقیاتی منصوبوں کے بارے میں سوچتا ہے۔ وزیر اعظم معیشت کے بارے میں سوچتا ہے۔
ملک میں مہنگائی (افراط زر)‘ بے روزگاری‘ صنعتی پیداوار‘ برآمدات‘ درآمدات‘ جاری اخراجات (کرنٹ اکاؤنٹ) خسارے میں کمی اور شرح نمو میں اضافہ وزیراعظم کے مقصود ہوتے ہیں۔ وزیراعلیٰ منصوبوں کے بارے میں سوچتا ہے۔ وزیر اعظم ملک کی خارجہ پالیسی خاص طور پر امریکہ‘ چین اور سعودی عرب کے ساتھ خارجہ تعلقات کے بارے میں سوچتا ہے۔ وزیراعلیٰ کی سوچ منصوبوں کے بارے میں ہوتی ہے۔ وزیر اعظم سرحد پار دہشت گردی روکنے کے بارے میں سوچتا ہے۔ وزیراعلیٰ کی سوچ منصوبوں کے بارے میں ہوتی ہے۔ وزیر اعظم لوڈ شیڈنگ‘ پیٹرولیم مصنوعات کی قلت اور جان بچانے والی ادویات کی فراہمی اور قیمتیں اعتدال پر رکھنے کے بارے میں سوچتا ہے۔ وزیراعلیٰ منصوبوں کے بارے میں سوچتا ہے۔ وزیر اعظم سٹیٹ بینک کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کیلئے ذمہ دار ہوتا ہے۔
وزیراعلیٰ منصوبوں کے بارے میں سوچتا ہے۔ وزیر اعظم آئی ایم ایف‘ عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے ساتھ تعلق و تعاون کے لئے ذمہ دار ہوتا ہے۔ وزیراعلیٰ امن و امان برقرار رکھنے کے بارے میں سوچتا ہے لیکن وزیر اعظم کو پانچ ٹریلین روپے کے بجٹ خسارے‘ بیس ارب ڈالر کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے چوون کھرب روپے کے قومی قرضے اور ایک سو تیس ارب ڈالر کے بیرونی قرضے جیسے مسائل سے نمٹنا ہوتا ہے۔ وزیراعلیٰ کا عہدہ بھی کارکردگی دکھاتا ہے لیکن وزیر اعظم کو روپے کے مقابلے ڈالر کی قدر برقرار رکھنا ہوتی ہے۔
وزیراعلیٰ ’بجٹ سرپلس‘ کا دعوی ٰ کرسکتا ہے کیونکہ نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ کے تحت اربوں روپے صرف صوبائی کھاتوں میں جمع ہوتے ہیں۔ وزیر اعظم کو ہمیشہ ’بجٹ خسارے‘ کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ صوبوں کو مالی وسائل تقسیم کرنے کے بعد اور دفاعی ضروریات کیلئے مالی وسائل مختص کرنے کے بعد وزیراعظم کے پاس زیادہ کچھ نہیں بچتا۔ وزیراعلیٰ سے وزیر اعظم تک کا راستہ چار متغیرات پر منحصر ہے۔ توجہ‘ یادداشت‘ عمل کی شرح اور ترتیب۔ توجہ“معلومات اور کاموں پر توجہ مرکوز کرنے اور خلل کو نظر انداز کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔“ یاداشت (میموری) ”معلومات برقرار رکھنے اور یاد رکھنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ پروسیسنگ ریٹ وہ رفتار ہے جس پر کوئی شخص ملنے والی معلومات پر درست کاروائی کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ سیکوئنسنگ ”معلومات کی تفصیل کو اس کی ترتیب میں رکھنا ہوتا ہے۔“
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)