سٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں مارچ کے مہینے میں ریکارڈ دو ارب اَسی کروڑ ڈالر ترسیلات ِزر آئی ہیں۔ یہ ماہانہ اعتبار سے اٹھائیس اعشاریہ تین فیصد کا اضافہ ہے۔ معمول کے مطابق سب سے زیادہ رقوم سعودی عرب اور متحدہ عرب امارت میں رہنے والے پاکستانیوں نے بھیجی ہیں۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس ریکارڈ ترسیلاتِ زر کی ایک وجہ رمضان المبارک اور عید سے متعلق اخراجات بھی ہیں لیکن اگر رمضان اور عید کو شامل کر بھی لیا جائے تب بھی یہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے قومی خزانے میں بھیجی گئی رقم میں اضافے کو ظاہر کرتا ہے۔ترسیلات ِزر کی بات کی جائے تو یہ بالکل الگ قسم کے پاکستانی بھیجتے ہیں۔ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی مڈل کلاس اور اپر مڈل کلاس کی ایک خاطر خواہ تعداد بیرونِ ملک رہتی ہے اور ان میں سے کئی یہاں اپنے خاندانوں کے کفیل ہیں۔ یہ سب وہ لوگ ہیں جنہیں پاکستان اپنی ابھرتی ہوئی اور اکثر ناکام معیشت میں شامل نہیں کرسکا۔ ان میں ڈاکٹرز‘ کمپیوٹر انجینئرز‘ پیٹرولیم اور الیکٹرانک انجینئرز‘ بحری جہازوں کے کپتان‘ مارکیٹنگ منیجرز‘ ایڈورٹائزنگ سے وابستہ افراد اور ایسے ہی دیگر شعبوں کے باصلاحیت افراد شامل ہیں
جنہیں پاکستان میں نوکری نہیں مل سکی اور زیادہ بہتر مواقعوں کے حصول اور اپنے گھر والوں کا سہارا بننے کے لئے وہ ملک سے باہر چلے گئے اور اب وہاں سے رقومات پاکستان بھیجتے ہیں۔ گزشتہ برسوں میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ دیگر ممالک سے آنے والی امداد نہ صرف ناقابلِ اعتبار ہے بلکہ اس سے بدعنوانی کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی ہے۔ امداد دینے والے اداروں اور امداد وصول کرنے والوں کے درمیان مڈل مین کا کردار ادا کرنے والوں کے پاس کئی طرح کے مواقع ہوتے ہیں اور وہ امداد وصول کرنے والوں سے زیادہ امداد دینے والوں کے ہمدرد ہوتے ہیں۔ یہی وجہ کہ کئی ترقیاتی منصوبے ناکام ہوجاتے ہیں۔ سکول تعمیر ہونے کے بعد خالی پڑے رہتے ہیں۔ کلینکس کبھی کھلتے ہی نہیں اور اساتذہ کبھی پڑھانے نہیں آتے ترسیلاتِ زر غیرملکی امداد یا قرض سے بہت مختلف ہوتی ہیں۔ یہ رقم اصل میں پاکستانیوں کے پاس جاتی ہے جو اسے خرچ کرتے ہیں اور مقامی معیشت کو سہارا ملتا ہے۔
وہ اس رقم کو کاروبار شروع کرنے یا جائیداد خریدنے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ چونکہ یہ رقوم خرچ کرنے والوں کو مارکیٹ کے حوالے سے سمجھ بوجھ ہوتی ہے اس وجہ سے ان کاموں میں کرپشن کی وجہ سے نقصان کا خطرہ بہت کم ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ معیشت کو مقامی اور بعض اوقات بیرونی دھچکوں سے محفوظ بھی رکھتی ہے۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ کورونا وبا کے دوران ترسیلاتِ زر میں اضافہ ہوا تھا۔ مستقبل میں بننے والی دیگر جماعتوں کی حکومتیں اگر بیرونِ ملک پاکستانیوں کے جذبات کا احترام نہیں کرتیں تو یہ ان کی غلطی ہوگی کیونکہ بیرونِ ملک پاکستانیوں کی توجہ اور جذبات کسی بھی حکومت کے استحکام کیلئے نعمت سے کم نہیں ہوں گے۔ درحقیقت ترقیاتی فنڈز کی بھیک مانگنے سے بہتر ہے کہ ہم اپنے لوگوں کیلئے دنیا بھر میں ملازمت کے زیادہ سے زیادہ مواقعوں کے حصول کی کوششیں کریں۔ جب پاکستانی ہی پاکستان میں سرمایہ کاری کریں گے تو اس سے غیروں کی شرائط پر لی گئی امداد اور قرضوں سے نجات مل سکتی ہے۔ تاہم اس کیلئے زیادہ منظم انداز میں ترسیلات زر سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے.