ٹیکنالوجی کا ارتقاء

ہر دن کسی نہ کسی نئی ٹیکنالوجی کا منظر عام پر آنا اور ٹیکنالوجی کا تیزی سے اُبھرنا ہمارے اردگرد کی دنیا پر جادوئی انداز سے اثرانداز ہو رہا ہے اور تبدیلی کا پیش خیمہ بھی ہے۔ نئی ایجادات سے عجیب و غریب حقائق سامنے آ رہے ہیں جیسا کہ کمپیوٹروں کے ذریعے پودوں اور جانوروں کی نئی اقسام تلاش کی جا رہی ہیں اِس عمل کو ”جین ایڈیٹنگ“ کہا جاتا ہے جو کمپیوٹروں کی مدد سے کی جاتی ہے اور اب سالہا سال کی تحقیق ہفتوں اور مہینوں میں کرنا ممکن ہو چکا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ ایسے آلات تیار کر لئے گئے ہیں جو تصاویر کے ذریعے نابینا افراد کی جزوی بینائی بحال کر سکتے ہیں جنہیں اعصابی نظام کے ذریعے دماغ میں منتقل کیا جا سکتا ہے اور یوں انسانی دماغ میں معلومات ذخیرہ کرنے اور اِس معلومات کو دوبارہ حاصل کرنے پر عبور کی کوششیں جاری ہیں۔ ایسی ادویات بھی تیار کی گئی ہیں جو بڑھتی ہوئی عمر کو روک سکتی ہیں یا بڑھاپے کے عمل کو سست کر سکتی ہیں۔
 یہ خیال کیا جاتا ہے کہ مستقبل میں پیدا ہونے والے بچوں کی اوسط عمر زیادہ ہوگی۔ ایک ایسی دھات گرافین تیار کی گئی ہے جو اسٹیل سے زیادہ مضبوط ہے۔ کمپیوٹروں کی دنیا میں مصنوعی ذہانت پر بہت تیزی سے کام ہو رہا ہے اور یہ ترقی کر رہی ہے۔ مصنوعی ذہانت ٹریفک مینجمنٹ سے لے کر انسداد منشیات کی کوششوں میں بھی استعمال ہو رہی ہے اور اِسی مصنوعی ذہانت سے حصص کے کاروبار (اسٹاک ایکس چینج) میں مدد لی جا رہی ہے جبکہ صحت و ماحولیاتی مسائل بھی اِسی سے اجاگر کئے جا رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ نئی ٹیکنالوجیز کا منفی پہلو یہ ہے کہ اِن کا دفاعی مقاصد کے لئے استعمال ہو رہا ہے جس سے جدید جنگی ہتھیار جنم لے رہے ہیں۔
 اب ایسے ذہین ڈرونز طیارے بنا لئے گئے ہیں جو جھنڈ کی صورت حملہ کریں گے اُور یہ سبھی ایک دوسرے سے بیک وقت معلومات کا تبادلہ بھی کر رہے ہوں گے اُور یوں کسی دشمن انتہائی منظم انداز سے اور چاروں اطراف سے حملہ کیا جائے گا۔ وقت کے ساتھ جنگ کا میدان اور جنگی حکمت عملیاں تبدیل ہو رہی ہیں اور اب کسی جنگی محاذ پر کامیابی کیلئے ٹینک یا پیدل عسکری قوت کی ضرورت نہیں رہی۔ ترکی کے بیراکتر ٹی بی ٹو  ڈرون‘ بارہ میٹر کے پروں کے ساتھ ایک ایسا جنگی ڈرون ہے جس نے یوکرین  میں روس کے زمینی ہتھیاروں کو تباہ کیا ہے۔ یوکرین میں چھوٹے پورٹیبل سوئچ بلیڈ ڈرونز بھی کامیابی سے استعمال ہو رہے ہیں۔
ٹیکنالوجی کے میدان میں ایک اور تیزی سے اُبھرتا ہوا شعبہ ’نینو ٹیکنالوجی‘ کا ہے۔ نینو ٹیکنالوجی اپنی دریافت سے خصوصیات کی حامل ہے اور اِس نے امکانات کے نئے جہان پیدا کئے ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ ایک نینو میٹر ایک میٹر کا اربواں حصہ ہوتا ہے۔ نینو ٹیکنالوجی ایپلی کیشنز تمام سائنس کے شعبوں جیسا کہ بائیو میڈیکل‘ کیمیکل‘ میکانیات‘ الیکٹرانکس‘ کمپیوٹر سائنسز اور مادی سائنس کی دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں۔ نینو سکیل سنسرز اور ڈیوائسیز سے گاڑیاں چلانے اور تعمیرات کے مشکل مراحل کو آسان بنایا جا رہا ہے۔ فی الوقت نینو ٹیکنالوجی کا اطلاق پانی کی تطہیر‘ ادویات سازی‘ کاسمیٹکس‘ الیکٹرانکس‘ نئے مواد کی تلاش و ایجاد سمیت بہت سے دیگر شعبوں میں بھی کیا جا رہا ہے اور یہ کس قدر تیزی سے مقبول ہوتا سلسلہ ہے اِس بات کا اندازہ اِس سے لگایا جا سکتا ہے کہ نینو الیکٹرانکس کے شعبے کا مالیاتی حجم تقریبا چار کھرب ڈالر ہے اور اس میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اسی طرح بلٹ پروف جیکٹس نینو سیلولوز سے بنائی جا رہی ہیں۔
 یہ جیکٹیں ہلکی ہونے کے علاوہ‘ زیادہ طاقت کا حملہ برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ عالمی نینو ٹیکنالوجی مارکیٹ کا حجم تقریبا ایک اعشاریہ اَسی ارب ڈالر ہے اور سال دوہزارتیس تک یہ حجم 33 ارب ڈالر تجاوز کرنے کا امکان ہے۔تیز رفتار ترقی کا ایک اور دلچسپ استفادہ شعبہ توانائی میں دیکھا جا سکتا ہے۔ نئے اور زیادہ مؤثر شمسی خلیات تیار ہو رہے ہیں۔ بلٹ ان سولر سیلز تیار کئے گئے ہیں تاکہ جس سمت سے بھی اُن پر سورج کی روشنی پڑے تو وہ زیادہ صلاحیت سے بجلی پیدا کر سکیں۔ بجلی کی طاقت سے الیکٹرک کاروں کو چلانے کے لئے نئی زیادہ موثر بیٹریاں ایجاد کی گئی ہیں اُور اِس شعبے میں بھی پیش رفت جاری ہے یہ اور دیگر حیرت انگیز ٹیکنالوجیز تیزی سے ہماری دنیا کو تبدیل کر رہی ہیں اور جو کاروبار ان کا استعمال کر سکتے ہیں اُور کر رہے ہیں وہ اپنے ہم عصروں کے مقابلے زیادہ تیزی سے پھل پھول رہے ہیں۔
 دلچسپ بات ہے کہ حیاتیاتی نمونوں پر مبنی کمپیوٹر سسٹم دوہزارسولہ سے دوہزاربیس کے درمیان متعارف کرایا گیا تھا۔ گوگل‘ مائیکروسافٹ اور انٹیل اس میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ اِسی طرح مشین لرننگ‘ کوانٹم کمپیوٹنگ‘ خود مختار ٹیکنالوجی اور تھری ڈی پرنٹنگ کے شعبے تیزی سے پھیلتے چلے رہے ہیں۔ پاکستان میں جدید ٹیکنالوجی متعارف کرانے اور اِس شعبے میں عالمی تحقیق کے شانہ بشانہ آگے بڑھنے کیلئے بہترین آغاز ہری پور‘ ہزارہ میں پاک آسٹرین یونیورسٹی آف اپلائیڈ سائنس اینڈ انجینئرنگ کے قیام سے ہوا ہے اور اسی طرح کی ایک یونیورسٹی اب سیالکوٹ میں زیر تعمیر ہے۔ آرٹیفیشل انٹیلی جنس (مصنوعی ذہانت) میں تحقیق کے لئے قومی سطح پر کئی مراکز قائم کئے گئے ہیں جن کی فہرست میں این یو ایس ٹی‘ اسلام آباد‘ نیشنل سینٹر فار آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے علاؤہ این ای ڈی انجینئرنگ یونیورسٹی‘ یو ای ٹی لاہور اور دیگر جامعات شامل ہیں۔ چین اور آسٹریا کی اعلیٰ یونیورسٹیوں کے تعاون سے سینو پاک سینٹر فار آرٹیفیشل انٹیلی جنس نے ہری پور کی پاک آسٹرین یونیورسٹی میں بھی کام شروع کر دیا ہے۔
 پاکستان کا پہلا نیشنل سنٹر فار نینو ٹیکنالوجی کراچی یونیورسٹی کے انٹرنیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بائیولوجیکل سائنسز میں قائم کیا گیا ہے۔ پاک آسٹرین یونیورسٹی آف اپلائیڈ سائنس اینڈ انجینئرنگ خاص طور پر پاکستانی طلبہ کی نئی اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز میں تربیت پر توجہ مرکوز کرے گی۔ اس کی سربراہی ایک ممتاز پاکستانی سائنسدان پروفیسر مجاہد کر رہے ہیں اور پروفیسر ناصر علی خان پراجیکٹ ڈائریکٹر کی حیثیت سے ترقیاتی کوششوں کی قیادت کر رہے ہیں۔ یہ دو اہم خصوصیات کے ساتھ دنیا کی پہلی یونیورسٹی ہے۔ سب سے پہلے‘ اس کے دو تعلیمی حصے ہیں ایک بی ایس سی اور ایم ایس سی کی سطح پر اعلی سطح کی تکنیکی تربیت فراہم کرتا ہے اور دوسرا پوسٹ گریجویٹ پی ایچ ڈی پوسٹ ڈاکٹریٹ سطح کی ریسرچ یونیورسٹی ہے۔
 اس شعبہ کے ہر شعبہ کو آسٹریا یا چینی یونیورسٹی کی طرف سے سرپرستی حاصل ہے جو معیار کی یقینی فراہمی‘ فیکلٹی کی ترقی‘ تکنیکی ماہرین کی تربیت اور امتحانات کے معیار کو بہتر بنانے میں تعاون کر رہے ہیں۔ اس یونیورسٹی کی ایک بڑی ترجیح اعلی ٹیکنالوجی سے بنائی جانے والی مصنوعات کی ترقی ہے اور اس لئے اس کا مرکز ٹیکنالوجی پارک ہے جہاں تعلیم و تحقیق کو صنعت (پیداواری شعبے) کے قریب لایا جائے گا۔ (مضمون نگار ہائر ایجوکیشن کے بانی و سابق چیئرمین‘ وفاقی وزیر اُور سائنس و ٹیکنالوجی سے متعلق امور کے لئے وزیراعظم کے مشیر رہے ہیں۔ بشکریہ: دی نیوز۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)