بڑے عہدوں سے بڑی ذمہ داریاں جڑی ہوتی ہیں اور جب اِس اصول اور کسوٹی پر بلاول بھٹو زرداری کی سیاسی جدوجہد اور اُن کی بطور وزیرخارجہ ملنے والی پہلی ذمہ داری کو دیکھا جائے تو یقینا یہ عہدہ کڑی آزمائش ہے۔ ستائیس اپریل کے روز وزیر خارجہ بننے والے محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے بیٹے ہیں جنہیں دفتر خارجہ میں فرائض انجام دیتے ہوئے متعدد چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑے گا چاہے وہ کسی عالمی طاقت (سپر پاور) کے ساتھ تعلقات کی بحالی ہو یا ملک کے شمال مشرق میں بھارت جیسے پڑوسی کے ساتھ تعلقات معمول پر لانا جو ہمیشہ محاذ جنگ گرم رکھتا ہے۔ بھارت کو امریکہ کی حمایت حاصل ہے اور ایسی صورت میں بیک وقت بھارت و امریکہ کو پاکستان کے نکتہئ نظر اور مفاد سے سوچنے پر مجبور کرنا قطعی آسان نہیں ہوگا۔ ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ بطور وزیرخارجہ 33 سالہ بلاول (پیدائش 21 ستمبر 1988ء) کو جن ہم عصر وزرائے خارجہ سے وابستہ پڑے گا وہ سب بہت منجھے ہوئے اور عالمی سیاست و سفارتکاری کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ سیاسی بیانات داغنے اور سفارتی لب و لہجے میں بات چیت کے درمیان زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے کیونکہ اوّل الذکر طرز خطاب میں احتیاط کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ہوتی جبکہ دوسرے طرز خطاب میں ہر قدم اور ہر لفظ پر احتیاط ہی احتیاط برتی جاتی ہے۔بھٹو خاندان کو بلاول کے وزیرخارجہ بننے سے ایک اور اعزاز حاصل ہو گیا ہے کہ اِنہوں نے پاکستان کو ”کم عمر وزیر خارجہ“ دیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان کیلئے یہ پیشرفت کس طرح مختلف ثابت ہوگی؟ کیا یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو درپیش سنگین مشکلات سے بچا سکے گا؟ پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت پراُمید ہے کہ بلاول کی پہلی قومی ذمہ داری بطور وزیرخارجہ اِنتہائی مختلف اور خوشگوار ثابت ہوگی کیونکہ عالمی سیاست ایک ایسا شعبہ ہے جو بلاول کے وسیع مطالعے اور ذاتی دلچسپی کا مضمون ہے دیکھنا یہ ہے کہ خاندان کی سیاسی میراث (پشت پناہی) اُنہیں کس قدر سہارا (فائدہ) دے گی جبکہ غلطی کی گنجائش نہیں اور سفارتی تجربے کی کمی عالمی سطح پر پاکستان کے مفادات کیلئے نقصان کا باعث بھی ہو سکتی ہے۔ پیپلزپارٹی کے نکتہئ نظر سے دیکھا جائے تو اُنہوں نے مستقبل کے وزیراعظم کو قوم کے سامنے پیش کر دیا ہے اُور اِس ’لانچ‘ کی مدد سے بلاول کو عالمی سیاست میں اپنا نام بنانے کا موقع مل گیا ہے‘ جو ایک نہایت ہی اہم اور سوچا سمجھا انتخاب ہے۔ برطانیہ کے معروف تعلیمی ادارے ”آکسفورڈ“ سے فارغ التحصیل (گریجویٹ) نے قیادت کے جو اصول سیکھے ہیں‘ وقت آ گیا ہے کہ اُن کی آزمائش کی جائے۔ بلاول کے بارے میں عمومی تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے والد کے زیراثر رہتے ہیں لیکن یہ تاثر سراسر غلط ہے البتہ بلاول کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ خود کو عقل کل نہیں سمجھتے اور مشاورت سے فیصلے کرتے ہیں اور اِن میں ہر فیصلے سے پہلے مشاورت و رہنمائی لینے کی عادت پائی جاتی ہے۔ اختلاف کرنے ایک یا دو بار نہیں بلکہ کئی بار اُنہیں اپنے والد سے کئی ایک سیاسی امور و معاملات پر اختلاف کرتے دیکھا گیا ہے اور پیپلزپارٹی بھی اپنے چیئرمین (بلاول) کی رائے کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی ’اتفاق ِرائے‘ سے فیصلہ کرتی ہے۔ بلاول ایک ’غیر روایتی سیاستدان‘ ہیں اور وہ آنے والے دنوں میں مزید مختلف ثابت ہوں گے۔بلاول نے ایک ایسے وقت میں وزارت خارجہ کا قلمدان سنبھالا ہے جبکہ پاکستان کو فعال سفارتکاری (ڈپلومیسی) کی ضرورت ہے تاکہ عالمی سطح پر پاکستان کے اصولی مؤقف اور حیثیت کو مستحکم کیا جا سکے اور پاکستان کے بارے میں پائے جانے والے تصورات کی خاطرخواہ وضاحت بھی کی جائے۔سندھ میں حکمرانی اور خارجہ پالیسی کے محاذ پر کامیابی دو مختلف چیزیں ہیں کیونکہ مقامی محاذ پر مصلحت سے کام لینا پڑتا ہے اور سمجھوتا کرنا پڑتا ہے جبکہ عالمی سیاست کا شعبہ بالکل مختلف ہے۔ پیپلزپارٹی کے رہنما بلاول کی بطور وزیر خارجہ تقرری سے دلی طور پر خوش ہیں ایسے رہنماؤں میں بڑی تعداد اُن کی شامل ہے جو کبھی بلاول کی والدہ (محترمہ بینظیر) کے قابل اعتماد ساتھی رہے اور یہی وجہ ہے کہ اِن کے خوش ہونے کی اپنی وجوہات ہیں۔ پیپلزپارٹی کے ایک سینئر رہنما جو محترمہ کے بہت قریب رہے اور پارٹی کے حکومت میں رہتے ہوئے زیادہ تر آئینی عہدوں پر فائز بھی کئے گئے کہتے ہیں کہ ”میں پاکستان کیلئے بلاول سے زیادہ خوش ہوں۔ بیرونی دنیا کیلئے بلاول کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ وہ کون ہے اور اِس خاندان کی سیاسی سمجھ بوجھ کس بلند درجے کی ہے۔ دنیا بھٹو خاندان اور بھٹو خاندان کی سیاست سے روشناس ہے۔ البتہ بلاول کی تعلیم‘ بصیرت‘ مہارت اور سیاسی گرومنگ کا امتحان درپیش ہے اور میں پُرامید ہوں کہ وہ پاکستان کو مایوس نہیں کریں گے۔“ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: عمران ایوب۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
سرمائے کا کرشمہ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
سائبرسکیورٹی: نئے محاذ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام