وزیرِاعظم شہباز شریف نے اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد کئی پالیسی اقدامات کا اعلان کیا تھا۔ ان میں یہ عزم بھی شامل تھا کہ صرف پنجاب کی نہیں بلکہ تمام صوبوں کی ترقی پر توجہ دی جائے گی‘یہ خوش آئند بات ہے۔ نواز لیگ کی پہلی ترجیح سیاسی مفاہمت اور قیامِ امن ہونی چاہئے۔ صوبے میں جاری کشیدگی کے پُرامن حل تک یہاں معاشی ترقی کا کوئی بڑا منصوبہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔ اس حوالے سے حکومت کو بلوچستان میں جاری کشیدگی کی پیچیدگیوں کو سامنے رکھنا ہوگا۔ یہاں جنوبی بلوچستان میں ایک کم پیمانے کی شورش جاری ہے۔بلوچستان میں کشیدگی کم کرنے کے لئے مختلف حکمت ِعملی کی ضرورت ہوگی۔ سترہ سال سے جاری شورش سے یہ اہم بات سامنے آئی ہے کہ جابرانہ اقدامات اور ترقیاتی پیکجز دونوں ہی ناراض بلوچوں کو سیاسی دھارے میں لانے میں ناکام رہے ہیں۔ اس کے علاؤہ پُرتشدد تنازعات کا دوبارہ سر اٹھانا اس بات کا ثبوت ہے کہ صرف سکیورٹی پر توجہ دینے سے امن کا حصول ممکن نہیں ہوسکتا۔ اس لئے چند فوری اقدامات ضروری ہیں۔
حکومت بلوچ شورش پسندوں سے رابطے کے لئے جامع حکمت ِعملی تشکیل دے۔ اس حکمت ِعملی میں قدآور سیاسی شخصیات شامل ہوں جو مذاکرات کی قیادت کریں اور اعتماد سازی کے اقدامات کے نفاذ کو یقینی بنائیں۔محض معافی کی پیشکش یا تشدد کو ترک کرنے کی نصیحتیں یہاں مؤثر ثابت نہیں ہوں گی۔ اس شورش کا سب سے زیادہ فائدہ انہی لوگوں کو ہوتا ہے جس وجہ سے شورش کا باقی رہنا ان کے مفاد میں ہے۔ ماضی میں بلوچ شورش پسندوں کے ساتھ ہونے والے مذاکرات دو وجوہات کی بنا ء پر ناکام ہوئے۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ مفاہمتی کوششیں اور جبر ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ مذاکراتی عمل کی قیادت کرنے والے بامعنی پیشکش کرنے کی نہ تو ساکھ رکھتے تھے اور نہ ہی ان کے پاس اس کی آزادی تھی۔ دوسرا اہم معاملہ یہ ہے کہ قدرتی اور ساحلی وسائل کے حوالے سے بلوچوں کے خدشات دُور کئے جائیں جس کے لئے ضروری ہے کہ آئین کے آرٹیکل 172اور 158پر مؤثر عمل درآمد یقینی بنایا جائے اور اچھی ساکھ رکھنے والے بلوچ اراکین پارلیمنٹ کی سربراہی میں ایک طاقتور پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے۔
وفاق کے زیرِ انتظام تیل اور گیس کمپنیوں کی ملکیت‘ انتظام اور آمدن میں بلوچستان کو اس کا جائز حصہ بھی دیا جانا چاہئے۔ ساتھ ہی قدرتی گیس کی قیمتوں‘ ٹیکسوں اور دیگر محاصل کی تقسیم کے حوالے سے بھی بلوچستان کے خدشات دُور ہونے چاہئیں۔ اِس سلسلے میں آغاز ”حقوق بلوچستان پیکج“ میں کئے گئے وعدے کے تحت سینڈک کاپر گولڈ منصوبے کی ملکیت حکومت ِبلوچستان کو منتقل کی جاسکتی ہے۔ ریکوڈک معاہدے کو پبلک کیا جائے اور صوبے میں ریفائنری کا قیام یقینی بنایا جائے۔ کارپوریٹ منیجمنٹ اور بورڈ کے ساتھ چاغی میں اس کا قیام ضروری ہے۔ کمپنی کے منافع کے دو فیصد‘ وفاقی منافع کے دو فیصد اور رائلٹی ادائیگیوں کی نصف رقم پر مشتمل کارپوریٹ سوشل رسپانسبلٹی (سی ایس آر) فنڈ بھی اسی کے اختیار میں ہونا چاہئے تاکہ مقامی آبادی کی سماجی و اقتصادی ترقی کو یقینی بنایا جاسکے۔ جہاں تک چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کا تعلق ہے تو پاکستان کو مقامی لوگوں کے بنیادی حقوق‘ وقار اور ترقیاتی ضروریات کو ترجیح دیتے ہوئے‘
سمندری ماحولیات کا احترام کرنے اور مقامی ذریعہ معاش کو فروغ دینے کے لئے مزید جامع ترقیاتی حکمت ِعملی اختیار کرنا چاہئے۔ بلوچستان میں پینے کے پانی کے منصوبوں کو تیز کیا جائے۔ اس کے علاؤہ ساحلی پٹی کے ساتھ ڈی سیلینیشن اور ریورس اوسموسس ٹیکنالوجی کے استعمال کے لئے پبلک سیکٹر کمپنی بنائی جائے۔ گوادر بندرگاہ سے حاصل ہونے والی آمدنی میں بلوچستان کو حصہ دیا جانا بھی ضروری ہے۔ تیسری اہم بات یہ کہ غربت کے خاتمے اور سرحد پر باڑ لگانے سے لوگوں کے ذریعہ معاش پر پڑنے والے منفی اثرات کو کم کرنے کے لئے اقدامات کئے جائیں۔