اگر ملک میں ایک بار پھر اِحتجاج کا سلسلہ شروع ہوا تو اس کے معیشت پر تباہ کن اثرات و نتائج مرتب ہوں گے۔ درحقیقت پاکستان کی سیاسی قیادت کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ اِسے احتجاج یا معیشت میں سے کسی ایک ردعمل کو دفن کرنا ہوگا۔اس وقت حکومت پاکستان روزانہ کی بنیاد پر اتنی رقم کھو رہی ہے اور اگر ان نقصانات کو روکا جائے تو ہمارے اکثر مالی مسائل ختم ہو سکتے ہیں۔سابقہ دور حکومت میں دو بڑی سبسڈی اور ایک ٹیکس چھوٹ کا اعلان کیا گیا تھا۔ جہاں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں دس روپے فی لیٹر اور بجلی کے ٹیرف میں پانچ روپے فی یونٹ کمی کی اور آئی ٹی سیکٹر میں کمپنیوں اور فری لانسرز کیلئے ٹیکس چھوٹ کا بھی اعلان کیا گیا۔ہم ایک سال میں تقریبا بیس ارب لیٹر پٹرول اور ڈیزل استعمال کرتے ہیں جس کا مطلب تقریبا تین ارب روپے کا روزانہ نقصان یا تقریبا ایک سو ارب روپے کا ماہانہ نقصان ہوگا۔
یہ ایک سو ارب روپے وہ ہیں جو حکومت کے پاس نہیں۔اِنجینئر ارشد عباسی کی تحقیق کے مطابق پاکستان میں ہر سال تقریبا ایک سو چھبیس ارب مکعب فٹ گیس ضائع ہوتی ہے اور اِس نقصان کا مطلب چار ارب ڈالر سالانہ کا نقصان ہے۔ انجینئر عباسی کا دعویٰ ہے کہ ”میتھین گیس کے اخراج اور رساؤ کو دور کرنے کیلئے مشکل سے پانچ سو ملین ڈالر درکار ہوں گے۔“ اگر پاکستان اپنے ہاں گیس کا ضیاع کو روک لے تو اِسے آئی ایم ایف سے قرض لینے کی ضرورت نہیں ہوگی۔پاکستان کے جملہ سرکاری ادارے (پبلک سیکٹر انٹرپرائزز) خسارے میں ہیں۔ یہ ادارے یعنی پی آئی اے‘ پاکستان سٹیل‘ پاکستان ریلویز وغیرہ ہیں۔ سرکاری اداروں کو سالانہ سات سو ارب روپے کا اضافی قرض لینا پڑتا ہے۔ حکومت بھی ’گرانٹ‘ کہتی ہے۔
اس کے علاوہ حکومت سالانہ تقریبا دوسو ارب روپے دیتی ہے جسے ’سبسڈی‘ کہا جاتا ہے۔ دوہزاراٹھارہ میں سرکاری اداروں کے جمع ہونے والے نقصانات کا تخمینہ چودہ سو ارب روپے تھا۔ اس کے بعد یہ دوگنا ہو گیا ہے۔ پاکستان ایگریکلچر سٹوریج اینڈ سروسیز کارپوریشن (پاسکو) کا دعویٰ ہے کہ وہ ”قومی سطح پر غذائی تحفظ فراہم کرتی ہے۔“ مختلف اناج کی درآمد و برآمد کا کام انجام دیتی ہے۔ زرعی کاروبار کرتی ہے۔ پاسکو کی کارکردگی یہ ہے کہ ہر سال 180 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ نئی حکومت کیلئے واحد راستہ یہ ہے کہ سرکاری اِداروں کے روزمرہ کے نقصانات اور اِس خسارے سے چھٹکارا حاصل کرے جس کی وجہ سے قرضوں پر منحصر معیشت مسلسل دباؤ میں ہے۔ اس وقت ملک کو کفایت شعاری کی پالیسی پر چلانے کی ضرورت ہے اگر حکومتی ادارے کفایت شعاری پر عمل کریں اور ان اخراجات کو ختم کریں جن سے چھٹکارہ پانا ممکن ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ملک کو جس معاشی بحران اور خسارے کا سامنا ہے اس سے نجات پانے کا راستہ نکل آئے۔(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)