رمضان المبارک کا اختتام ہو چکا ہے۔ عید کی خوشیوں میں ہمیں اُس نعمت کا شکرگزار بھی ہونا چاہئے جو رمضان المبارک کی صورت عطا کی گئی اور یہ ہر سال بھیجی جاتی ہے جس سے دل اور جسم پاک ہوتے ہیں۔ گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے اور خالق و مالک کا شکریہ ادا کرنے کا موقع بھی ملتا ہے اگرچہ کسی مسلمان کی پوری زندگی شکر اور فکر کا مجموعہ ہونی چاہئے اور وہ اپنے رب کے حضور ہمیشہ شکرگزار اور عبادت گزار رہے لیکن رمضان کے دوران جس قدر عبادات کا اہتمام کیا جاتا ہے اُس پر غور کرتے ہوئے سال کے دیگر ایام بھی رمضان المبارک کی طرح بسر کرنے چاہیئں۔ جس طرح مادی دنیا میں مخصوص فصلوں کے بونے اور کٹائی کے موسم ہوتے ہیں اور اگر یہ موسم ضائع ہو جائیں تو کوئی دوسرا وقت ان کی تلافی نہیں کر سکتا اِسی طرح روحانی دنیا میں بھی ایسے ہی ادوار ملتے ہیں جب انسان اپنی روحانی ترقی کے موقع سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ مسلمانوں کیلئے رمضان کا مہینہ دن رات گناہوں کی توبہ' روح کی پاکیزگی اور سکون کے حصول کا مؤثر ذریعہ رہا۔ رمضان کا مطلب کیا ہے اس پر سطحی نظر ڈالنے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ کسی ایک دن سورج کے طلوع ہونے سے غروب ہونے تک کھانے پینے اور ازدواجی تعلقات سے پرہیز کی مشق نہیں بلکہ یہ روحانی ترقی کا ذریعہ ہے جو ہزاروں سالوں سے رائج ہے۔ درحقیقت روزہ کفایت شعاری اور ہمدردی کی اقدار کو پروان چڑھانے کیلئے ہے اور یہی عیدالفطر کا پیغام بھی ہے۔قبل از اسلام عرب میں روزہ عام تھا۔ جو محض فاقہ کشی نہیں جو خدا چاہتا ہے۔ اگر انسان صرف ایک رسم کی پاسداری کرنے کے لئے خود کو بنیادی ضروریات سے محروم کر دیں تو اس سے کوئی فائدہ نہیں لیکن پھر بھی' رمضان اور عید کے تصورات کو بھلا دیا گیا ہے۔ خدا کی طرف سے انسانوں کو دیا گیا پہلا تحفہ عقلیت کا ہے۔ اس کے بعد خالق کائنات نے ہمیں اپنی کتابیں اور رسول دیئے تاکہ ہم اس عقلیت کا استعمال کرتے ہوئے اس کے پیغام کو سمجھ کر دنیا کی سختیوں کا مقابلہ کر سکیں۔ رمضان میں ہی قرآن نازل ہوا۔ ایک کتاب جسے فرقان کہا گیا ہے یعنی حق اور باطل میں تمیز کرتی ہے۔ رمضان ہمیں اس عظیم وحی کی تعریف اور سمجھنے میں مدد کرتا ہے۔ خدا کی ہمیں یہ ہدایات کہ ہم دن کے مخصوص اوقات کیلئے اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے سے گریز کریں۔ تقویٰ پیدا کریں اور اس زندگی اور اگلی زندگی کیلئے قرآن کے معنی کا گہرا ادراک کریں۔ رمضان میں روزے کے اہم پہلوؤں میں خدا کے تابع ہونا بھی شامل تھا جس کے حکم سے ہم چاہیں تو بھی کھانے پینے سے انکار کرتے رہے۔ انسانی فطری خواہشات روکنے سے یہ احساس پیدا ہونا چاہئے کہ ہم ان خواہشات کے کنٹرول میں نہیں ہیں بلکہ خواہشات ہمارے کنٹرول میں ہیں۔ اِسی طرح روز قیامت اور اگلی دنیا اور اس حقیقت پر ہمارا یقین ہے کہ اگرچہ یہاں انصاف نہیں ہو سکتا لیکن ہر کوئی خدا کی عدالت میں مکمل انصاف حاصل کرے گا۔ خدا کی طرف سے کسی بھی حکم کے تابع ہونا اس یقین کے بغیر بیکار ہے کہ ہمارے ہر عمل کا حساب ہوگا۔ مسلم اصطلاح کے لحاظ سے روزہ کا مطلب صبر کرنا اور ان اعمال پر پابندیاں لگانا ہے جو عام طور پر ہمارے حواس کو خوش کرنے کیلئے کئے جاتے ہیں۔ روزے کے دوران ہماری جسمانی توانائیاں ختم ہونے کے باوجود ہر لمحہ اپنے خیالات اور اعمال پر نظر رکھنا ہی ہماری روحانیت اور استقامت کو تقویت دیتا رہا ہے۔ رمضان کے مبارک دن اور مبارک راتیں تمام ہو چکی ہیں لیکن ہمیں قرآن کو سمجھ کر اور گناہوں سے توبہ کی نیت کے ساتھ پڑھنا چاہئے۔ بجائے اس کے کہ اپنی زندگی کا قیمتی وقت ٹیلی ویژن دیکھنے یا پھر سوئے رہنے میں ضائع کر دیا جائے۔ روزہ رکھنا بھوک اور پیاس کا تجربہ کرنا تھا' جس سے دنیا بھر میں کروڑوں لوگ گزر رہے ہیں۔ اسلام یہ چاہتا ہے کہ تیس دن کے دوران رمضان کے تجربے سے کفایت شعاری اور سادگی کی اقدار کو پروان چڑھایا جائے اور ہمدردی کے جذبات پیدا ہوں اور لوگ اپنے وسائل سے پائیدار استفادہ کریں ۔(بشکریہ: ڈان۔ تحریر: نکہت ستار۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)