امریکہ کی معروف کاروباری شخصیت ’ایلون مسک‘ کے الفاظ میں ٹوئیٹر ”حقیقی عوامی ٹاؤن سکوائر ہے۔“ تو کیا ہمیں اب اس بارے میں فکر مند ہونا چاہئے کہ یہ عوامی ٹاؤن سکوائر دنیا کے امیر ترین شخص کی ملکیت ہوگیا ہے!؟ ٹوئٹر کی فروخت کے آزادی اظہار سے متعلق ہمارے خیالات‘ ہمارے مباحث اور اشاعتی پلیٹ فارمز کی طاقتور مالکان سے آزادی پر اہم اثرات مرتب ہوں گے۔۔ ایلون مسک کے آٹھ کروڑ فالورز ہیں اور وہ بہت زیادہ اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ ان کی جانب سے ٹوئٹر خریدے جانے کا مطلب یہ ہے کہ انہیں اب سنسر نہیں کیا جائے گا۔ وہ اپنی مرضی سے کسی بھی نظریئے کی ترویج یا تضحیک کرسکتے ہیں۔ یہ ساکھ کا مسئلہ ہے اور اگر ٹوئٹر کی پالیسیوں کو مشکوک انداز میں نافذ کیا جائے تو سچائی کے ساتھ ایلون مسک کے اعلان کردہ ’پیتھالوجیکل‘ جنون پر اعتبار کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ ایلون مسک کو جانچ پڑتال کا سامنا کرتے رہنا چاہئے اور ان کی جانب سے ٹوئٹرخریدے جانے سے یہ مفروضہ جنم نہیں لینا چاہئے کہ وہ اپنی حیثیت کا ناجائز استعمال کریں گے۔ ان کی جانب سے ٹوئٹرکے کچھ ملازمین کو نشانہ بنانا ان کے بُرے رویئے کے بارے میں خدشات کو دُور نہیں کرتا۔ (بشمول ٹوئٹر کے قانونی شعبے کی سربراہی کرنے والی خاتون کے ساتھ)۔ اس کے علاؤہ کسی پلیٹ فارم کو خریدنے کے بعد اسے نقصان پہنچانا کاروباری اور سٹریٹجک لحاظ سے کوئی اچھا طرزِ عمل نہیں ہے۔
’ایلون مسک‘ مواد سے متعلق ٹوئٹر کے ضابطوں پر اثر انداز ہونا چاہتے ہیں۔ انہیں خود کو ’فری سپیچ ایبسلوٹسٹ‘ کہلانے جانے سے کوئی مسئلہ نہیں ہے‘ ویسے آج تک کوئی بھی اس اصطلاح کی جامع وضاحت پیش نہیں کرسکا ہے۔ مواد کے حوالے سے ان کا نظریہ (کہ اگر کسی ٹوئٹ پر شبہ ہے تو اس ٹوئٹ کو موجود رہنے دیا جائے) بھی بہت کمزور ہے۔ پسماندہ گروہوں اور شہریوں کو ٹوئٹر پر شدید بدسلوکی‘ ہراسانی اور دھمکیوں کا سامنا ہے۔ مواد کے کنٹرول میں نرمی سے بہت سے لوگوں کو دیوار سے لگائے جانے کا خطرہ ہوسکتا ہے۔ ’ایلون مسک‘ نے حال ہی میں کہا کہ ’آزادی گفتار‘ کا مطلب ان باتوں کو کہنے کی آزادی ہے جس کی قانون میں اجازت ہے۔ یہاں قانون سے مراد امریکی آئین کی پہلی ترمیم ہے جو آزادی گفتار میں مداخلت کرنے والے ریاستی اقدامات کا تعین کرتی ہے تاہم ایک نجی کمپنی مختلف معیارات اپنانے کیلئے آزاد ہے۔
خیالات کی منڈی (مارکیٹ پلیس آف آئیڈیاز) کے وجود کیلئے ایلون مسک کو اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ لوگ اس منڈی میں آنا پسند کریں۔ مواد سے متعلق ضابطے ایک ایسی چیز ہے جس میں ایلون مسک کو ماہرین کی آراء اور شراکتی عمل کو مؤخر کرتے رہنا پڑے گا۔ حوصلہ افزأ بات یہ ہے کہ ایلون مسک نے وعدہ کیا ہے کہ وہ سپیم بوٹس کا مقابلہ کریں گے۔ اس سے آزادی اظہار میں مدد ملے گی اور ٹوئٹرپر تمام انسانوں کی تصدیق کرنے سے پلیٹ فارم کی ساکھ میں اضافہ ہوگا۔ ایلون مسک کا خیال ہے کہ ٹوئٹرکے الگوریتھم اوپن سورس ہونے چاہئیں تاکہ لوگ ان سے سیکھ سکیں اور بہتری کیلئے مشورے دے سکیں۔ یوں مختلف صارفین مختلف الگورتھم استعمال کرسکیں گے۔ کچھ لوگ تو اسے ایک انقلابی قدم کے طور پر دیکھیں گے تاہم یہ ان لوگوں کیلئے پریشانی کا باعث ہوگا جو عام صارف کیلئے الگورتھم کے محدود انتخاب‘ دانشورانہ املاک (انٹیلیکچوئل پراپرٹی) کے تحفظ سے متعلق مسائل اور ذرائع آمدن پر پڑنے والے اثرات سے متعلق فکرمند ہوں گے۔ بہرحال یہ ایک اہم مسئلہ ہے۔
پھر ایلون مسک نے ایک اور بات بھی کہی ہے اور وہ یہ کہ اگر ٹوئٹر آپ کی ٹوئیٹ پروموٹ یا ڈیموٹ کرتا ہے تو آپ کو اس بارے میں معلوم ہونا چاہئے۔ ایلون مسک کا خیال ہے کہ ٹوئٹر پر کسی شخص پر مستقل پابندی لگانے کے بجائے عارضی پابندی لگانا زیادہ مؤثر رہے گا یعنی اگر کوئی شخص‘ یہاں تک کہ ڈونلڈ ٹرمپ بھی اگر اپنا رویہ درست کرلے تو اسے واپسی کی اجازت ہو۔ ایلون مسک کا کہنا ہے کہ اگر ٹوئٹر کا مقصد حکومتوں اور عوام کے درمیان مزید اعتماد پیدا کرنا ہے تو ٹوئٹر میں شفافیت کے ذریعے عوام کے اعتماد کو بڑھانا بھی ضروری ہے۔ آزادی گفتار کی حمایت کرتے ہوئے ایلون مسک کا کہنا ہے کہ ٹوئٹرکو بھی ان ممالک کے قوانین کا احترام کرنا چاہئے جہاں جہاں یہ کام کرتا ہے۔ تو کیا یہ تضاد نہیں ہے؟ ٹوئٹر کی قدر ہی اس وجہ سے ہے کہ یہ جن ممالک میں کام کرتا ہے وہاں موجود آزادی گفتار پر پابندی لگانے والے قوانین کو چیلنج اور بعض اوقات ان کی خلاف ورزی کرنے والی آوازوں کو فروغ دیتا ہے۔ ان ممالک کے قوانین کا احترام کرنے کا تو مطلب یہ ہوگا کہ منحرف آوازوں اور انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والوں کو خاموش کروا دیا جائے گا۔
یوں یہ کئی حکومتوں کیلئے فائدہ مند ثابت ہوگا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ قوانین کی تعمیل اچھی چیز ہے لیکن جب ایلون مسک آزادی گفتار کی بات کررہے ہوں تو انہیں کمزوروں کی حفاظت کیلئے جرأت مند بننا ہوگا۔ مذکورہ تمام نکات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات بھی ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ بینک آزادی گفتار کے نام پر اربوں کا قرض نہیں دیتے یعنی ٹوئٹر میں کئی تبدیلیاں آئیں گی۔ ہوسکتا ہے کہ ایلون مسک اسے اشتہارات کی بنیاد پر قائم مالی ماڈل سے ہٹا کر رقم کے عوض سبسکرپشن پر لے جائیں جس سے ’بِلو ٹک‘ بھی مل جائے۔ پھر ایلون مسک نے ’ایڈٹ بٹن‘ کی بھی بات کی ہے جس کی ضرورت سے بھلا کون انکار کرے گا؟ انہوں نے ٹوئٹر پر اینڈ ٹو اینڈ انکرپشن لانے اور ایک مواصلاتی ذریعے کے طور پر اس میں بہتری لانے کی بھی بات کی ہے۔ ٹوئٹر کی خریداری دراصل کارپوریشنز بلکہ صرف ایک امیر آدمی کو حاصل طاقت کی یاددہانی ہے لیکن یہاں اس کے علاوہ بھی بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔ اگر ہم واقعی آزادی گفتار کی فکر رکھتے ہیں تو ہمیں اپنی سیاست اور مباحث میں اسے ترجیح دینی ہوگی۔ ایک کارپوریشن یا اسے کنٹرول کرنے والوں کو حکومت کی طرح ہمیشہ جوابدہ نہیں ٹھہرایا جاسکتا لیکن ہماری اجتماعی آوازیں حکومتوں اور بالآخر کارپوریشنز کے کام کرنے کے طریقے کو بدل سکتی ہے اور بدلے گی۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: وقاص میر۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)