پلاسٹک کا طوفان

ہماری زمین پلاسٹک کے سمند میں ڈوب رہی ہے۔ شعور کے باوجود پلاسٹک کی پیداوار اور کھپت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ اس عرصے میں 9 ارب 20 کروڑ ٹن پلاسٹک تیار ہوا جو اپنی زندگی کے ہر مرحلے پر ماحولیات اور انسانی زندگی کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ پلاسٹک کا بے تحاشہ استعمال معیشتوں پر بھی منفی اثر انداز ہورہا ہے۔ اِس کے اثرات زرعی شعبے میں دیکھے جاسکتے ہیں‘ جہاں پلاسٹک کی وجہ سے زمین کی زرخیزی اور فصل کی پیداوار میں کمی آرہی ہے جو غذائی قلت کی وجہ بن رہی ہے۔ فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کی جانب سے مارچ 2022ء میں جاری کی گئی رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ زرعی زمینیں بڑے پیمانے پر پلاسٹک سے آلودہ ہیں۔ زرعی شعبے میں سالانہ ایک کروڑ پچیس لاکھ ٹن پلاسٹک کی اشیا ء استعمال کی جاتی ہیں۔ یہ اشیا ء زیادہ تر فصل کی پیداوار اور مال مویشیوں (لائیو سٹاک) کے شعبوں میں استعمال ہوتی ہیں۔ اسی طرح اشیائے خورد و نوش کی پیکنگ میں بھی تین کروڑ ستتر لاکھ ٹن پلاسٹک استعمال ہوتا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا میں زرعی پیداوار میں پلاسٹک کا سب سے زیادہ استعمال ایشیا ء میں ہوتا ہے جو عالمی کھپت کا تقریباً نصف بنتا ہے۔ مذکورہ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ ”قابلِ عمل متبادل کی عدم موجودگی کی وجہ سے زراعت کے شعبے میں پلاسٹک کے استعمال میں اضافہ ہی ہونا ہے۔“ جس دوران ماحول دوست حل تلاش کئے جائیں اس دوران پلاسٹک کی اس بڑے پیمانے پر تیاری اور استعمال کے لئے فضلے کے بروقت اور مناسب انتظام کی ضرورت پیدا ہوجاتی ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق سال دوہزاراٹھارہ میں اُنتیس کروڑ دس لاکھ ٹن فضلہ پیدا ہوا لیکن اس کے صرف بیس فیصد کو ہی درست انداز میں ٹھکانے لگایا گیا یا ری سائیکل کیا گیا۔ پلاسٹک کا باقی فضلہ یا تو زمین میں دفن کردیا گیا یا پھر غریب ممالک میں کھلی فضا میں ڈال دیا گیا۔ اس سے زمین اور سمندروں میں پڑے پیمانے پر آلودگی پھیلی جس نے انسانی زندگیوں اور جنگلی حیات کو خطرے میں ڈالا۔ ایک بار استعمال ہونے والی پلاسٹک کی مصنوعات بشمول پانی کی بوتلیں‘ شاپنگ بیگز اور پیکیجنگ کا سامان ماحول کے لئے سب سے زیادہ خطرناک ہیں کیونکہ ان کے گلنے میں چار سو سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ پاکستان نے بھی کئی دیگر ممالک کی طرح پلاسٹک کے شاپنگ بیگز پر پابندی عائد کر رکھی ہے لیکن اس کے مؤثر ہونے کے لئے اس پابندی کو سختی سے نافذ کرنا ہوگا۔ دیگر یکساں طور پر نقصان دہ ایک بار استعمال ہونے والی پلاسٹک کی مصنوعات وافر مقدار میں استعمال ہورہی ہیں۔ کورونا وائرس کی وجہ سے ہیلتھ کیئر ورکرز کے لئے ذاتی تحفظ کے آلات اور دیگر طبّی آلات کی صورت میں ایک بار استعمال ہونے والی پلاسٹک کی اشیا ء کی طلب میں اضافہ ہوا جو مزید آلودگی کا باعث بنا۔ پلاسٹک کی بڑے پیمانے پر ہونے والی آلودگی اور اس کی بین الاقوامی نوعیت کی وجہ سے قومی اور مقامی سطح کے اقدامات ناکافی اور کم مؤثر ثابت ہورہے ہیں۔ یوں یہ پلاسٹک کی آلودگی ماحولیات سے متعلق عالمی خطرہ بن چکی ہے۔ یونائیٹڈ نیشن انوائرمنٹ پروگرام کے اندازے کے مطابق ”ہر سال ایک کروڑ نوے لاکھ سے دو کروڑ تیس لاکھ ٹن پلاسٹک دریاؤں میں جاتا ہے اور اگر صورتحال ایسی ہی رہی تو سال 2040ء تک دریاؤں میں مچھلیوں سے زیادہ پلاسٹک موجود ہوگا۔“ بدقسمتی سے ایک بار جب ضائع شدہ پلاسٹک گلنے کے بعد مائیکرو پلاسٹک میں تبدیل ہوجاتا ہے تو یہ سمندری حیات کو مزید آلودہ کردیتا ہے اور فوڈ چین میں داخل ہوجاتا ہے۔ پلاسٹک کے فضلے کی بین الاقوامی تجارت اس مسئلے کا ایک اور پہلو ہے جس کے غریب ممالک کے لئے سنگین نتائج ہوتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں پیدا ہونے والے پلاسٹک کے فضلے کی بڑی مقدار ترقی پذیر ممالک بھجوا دی جاتی ہے جہاں فضلے کے انتظام کا محدود بندوبست ہوتا ہے۔پاکستان بھی صنعتوں اور ری سائیکلنگ میں استعمال کے لئے پلاسٹک کا فضلہ درآمد کرتا ہے۔ 2018ء میں پاکستان نے اس مد میں ایک کروڑ دس لاکھ ڈالر خرچ کئے تھے۔ اگرچہ اس فضلے کا بڑا حصہ قانونی طور پر فروخت کیا جاتا ہے تاہم جنوبی ایشیا ء اور افریقہ میں یہ سمگل بھی ہوتا ہے جس سے اس کی کل مقدار کا اندازہ ہوتا ہے۔ بین الاقوامی تعاون کو مضبوط بنانے سے پلاسٹک کے فضلے کی غیر قانونی تجارت اور ماحولیاتی نقصان کو روکنے میں مدد ملے گی۔ اقوامِ متحدہ ریگولیٹری اقدامات‘ آگاہی مہمات اور سرکلریٹی کی جانب پیش قدمی کے لئے شراکت کو فروغ دیتے ہوئے ان کوششوں کی حمایت کرتا ہے اگرچہ دنیا کے پاس ابھی تک اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے پلاسٹک کے انتظام کا جامع طریقہ کار موجود نہیں ہے تاہم اقوامِ متحدہ 2024ء تک پلاسٹک کی آلودگی پر ایک بین الاقوامی اور قانونی طور پر پابند معاہدہ تیار کرنا چاہتا ہے تاکہ پلاسٹک کے مکمل لائف سائیکل پر کام کیا جاسکے جس میں اس کی پیداوار‘ ڈیزائن اور اسے ٹھکانے لگانا بھی شامل ہے۔ یہ موسمیاتی تبدیلی‘ حیاتیاتی تنوع کے نقصان اور آلودگی اور فضلے کے ’ٹرپل پلینٹری‘ بحران سے نمٹنے کا ایک طریقہ ہوسکتا ہے تاہم اس کے لئے بہت زیادہ تیاری کی ضرورت ہے۔ ممالک کو پالیسی سازی‘ پلاسٹک کے ماحول دوست متبادل کے لئے تحقیق کو فروغ دینے اور سرکلر معیشت میں سرمایہ کاری کے لئے نجی سرمائے کو متحرک کرنے کے ذریعے قابلِ عمل حالات تیار کرنے ہوں گے۔ اگلے دو سالوں میں معاہدے کی تیاری کے عمل کے دوران حکومتوں‘ صنعتوں‘ کاروباری اداروں اور دیگر سٹیک ہولڈرز کے لئے یہ اہم ہوگا کہ وہ اس چیلنج کے لئے کمربستہ ہوں اور پلاسٹک کی قلیل مدتی سہولت کو نظر انداز کرتے ہوئے متوازن اور صحت مند ماحولیاتی نظام کے مقصد پر توجہ مرکوز کریں۔ ہماری موجودہ اور آنے والی نسلوں کی خاطر یہ کوئی گھاٹے کا سودا نہیں۔ ماحولیاتی کثیر الجہتی ایک انتہائی مشکل کام ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: جمیل احمد۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)