اس وقت ملک کو سیاسی اور معاشی استحکام کی ضرورت ہے، جبکہ ان دونوں کی عدم موجودگی سے پاکستان مضبوط نہیں بلکہ کمزور ہو رہا ہے۔سٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر اگست دوہزاربائیس میں بیس ارب ڈالر سے کم ہو کر ساڑھے دس ارب ڈالر رہ گئے ہیں جو پانچ ہفتوں کی درآمدات کیلئے بمشکل سے کافی ہیں۔ مارچ کے چار ہفتوں میں ذخائر میں پانچ ارب ڈالر کی غیرمعمولی کمی ہوئی۔ اپریل دوہزاربائیس میں ہول سیل پرائس انڈیکس (ڈبلیو پی آئی) میں سالانہ اٹھائیس فیصد کا زبردست اضافہ ہوا۔ اِس صورتحال میں نئی حکومت کو تین کام کرنا ہوں گے۔ پٹرول کی قیمت میں اضافہ‘ بجلی کی قیمت میں اضافہ اور روپے کی قدر میں کمی۔ جب پٹرول اور ڈیزل کی قیمت دوسو روپے فی لیٹر کا ہندسہ عبور کر لے گی تو باقی سب چیزوں کی قیمتیں بھی بڑھ جائیں گی۔ پٹرول میں اضافہ‘ افراط زر میں اضافہ اور شرح سود میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ تصور کریں کہ حکومت اب پندرہ فیصد پر قرض لے رہی ہے۔ جب شرح سود بڑھتی ہے تو معیشت سست ہو جاتی ہے اور جب معیشت سست ہوتی ہے تو بے روزگاری بڑھ جاتی ہے‘ یہی وہ گھن چکر ہے جس میں پاکستان پھنسا ہوا ہے۔موجودہ حکومت کے اقدامات کو دیکھ کر جو ایک بات واضح ہے وہ یہ کہ حکومت مہنگائی (افراط زر) پر قابو نہیں پا سکے گی لیکن اچھی خبر یہ ہے کہ تاریخی طور پر مسلم لیگ (نواز) کی قیادت کو اِس بات کا تجربہ ہے کہ یہ ملک کی معاشی ترقی کو بہتر بنانے میں کامیاب رہی ہے اور مسلم لیگ (نواز) کے ادوار میں فی کس آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ قومی وسائل کی بچت کا کرشمہ ہے۔ امید ہے کہ فی کس آمدنی میں اضافہ ہمیں افراط زر کی زیادہ شرح برداشت کرنے کے قابل بنائے گا۔ پاکستان کے موجودہ اقتصادی ماڈل کے پانچ اجزاء ہیں: کارٹل‘ رعائت (سبسڈی)‘ معافی‘ کم مالیت کی برآمدات اور درآمدی پابندیاں۔ یہ ماڈل ماضی میں مساوی معاشی ترقی فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ مسلم لیگ نواز کا ترقی کا ماڈل یعنی سخت بنیادی ڈھانچے کی ترقی‘ ایک زیادہ قدر والا پاکستانی روپیہ اور گھریلو کھپت اِس موقع پر کام نہیں کرے گا کیونکہ پاکستان کو زیادہ تیز رفتار (فوری)‘ پائیدار اور مساوی معاشی ترقی یعنی ایک نئے معاشی ترقی کے فریم ورک کی ضرورت ہے۔ مسلم لیگ (نواز) کی قیادت والی مخلوط حکومت ان چیلنجوں سے کس طرح نمٹے گی کہ جن کا سامنا پاکستان کی کسی بھی سابقہ حکومت کو نہیں کرنا پڑا۔ اگلے سات سے آٹھ ہفتوں میں نئی حکومت کو قرضوں کی ادائیگی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی مالی معاونت کیلئے تقریبا نو ارب ڈالر درکار ہوں گے۔ نئی حکومت کو ’ہنگامی اقتصادی استحکام فریم ورک‘ کے علاؤہ ایک ’ڈھانچہ جاتی اصلاحاتی منصوبہ‘ پیش کرنا ہوگا جس کے بغیر آئی ایم ایف کا بورڈ حقیقی ڈالر تقسیم کرنے پر آمادہ نہیں ہوگا۔ یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ آئی ایم ایف بورڈ میں امریکہ کے رائے حاوی ہوتی ہے۔ پاکستان بیک وقت دو قسم کے دباؤ سے گزر رہا ہے۔ ایک اندرونی سیاسی دباؤ ہے جس میں حکومت کے خلاف سیاسی صف بندی ہو رہی ہے اور دوسرا بیرونی جیوپولیٹیکل ری ا لائنمنٹ ہے۔ اس وقت پہلے سے کہیں زیادہ پاکستان کو سیاسی استحکام کی ضرورت ہے۔ سیاسی عدم استحکام اور معاشی ترقی ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
سرمائے کا کرشمہ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
سائبرسکیورٹی: نئے محاذ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام