کیا تیل کی قیمتوں میں کمی ممکن ہے؟

ایسے حالات میں کہ جب ادائیگیوں کے توازن کے بحران کا بھی سامنا ہے۔ کیا قیمتیں بڑھانے کے سوا کوئی دوسرا راستہ تھا؟ کیا ہمیں تیل کی قیمتوں میں ہونے والے مزید اضافے سے ڈرنا چاہئے یا پھر اس کی عدم دستیابی سے یا پھر دونوں سے؟ہم کسی پری ستان میں نہیں رہتے اور نہ ہی ہمارے پاس کوئی سونے کا انڈہ دینے والی مرغی ہے۔ تیل کی تلاش ایک بہت ہی مشکل کام ہے اور اس میں کثیر سرمایہ خرچ ہوتا ہے۔ اکثر ساری کوششوں کے باوجود بھی تیل حاصل نہیں ہوتا۔ عالمی سطح پر اوسط یہ ہے کہ اگر پراسپیکٹر 10 کنوں پر ڈرلنگ کرتا ہے تو صرف ایک میں سے تیل نکلتا ہے۔ ہم بہت خوش قسمت ہیں کہ ہمارے یہاں سرمایہ کاروں کو ہر 4 میں سے ایک کنویں میں تیل ملا ہے لیکن اس کے باوجود بھی مالی سال 2020 میں ملک میں تیل کی مقامی پیداوار 77 ہزار بیرل روزانہ کی رہی(جو سالانہ تقریبا 2 کروڑ 81 لاکھ بیرل بنتی ہے)۔ اس دوران ہم نے 67 لاکھ ٹن خام تیل درآمد کیا۔ درآمد شدہ اور مقامی تیل ہماری ریفائنریوں میں صاف ہوا اور اس سے 97 لاکھ ٹن پیٹرولیم مصنوعات تیار کی گئیں۔ملک میں پیٹرولیم مصنوعات (ڈیزل، پیٹرول، ہائی آکٹین وغیرہ) کی طلب ایک کروڑ 73 لاکھ ٹن تھی۔ 
پاکستان انرجی ایئر بک 2020 کے مطابق مالی سال 2020 میں ہم نے اس طلب کو پورا کرنے کیلئے 75 لاکھ ٹن پیٹرولیم مصنوعات درآمد کیں لیکن پاکستان بیورو آف سٹیٹ سٹکس کے مطابق اس درآمد کا حجم ایک کروڑ 9 لاکھ ٹن تھا اور اس پر کل 4 ارب 70 کروڑ ڈالر خرچ ہوئے۔ہم اعداد و شمار کے تضاد کو ایک طرف رکھتے ہوئے اس اہم نکتے کو دیکھتے ہیں کہ مالی سال 2020 کے دوران عالمی سطح پر تیل کی قیمتیں 22 سے 66 ڈالر فی بیرل کے درمیان رہیں جبکہ مالی سال 2022 میں یہ قیمت 78 سے 110 ڈالر کے درمیان رہیں یعنی 2 سالوں میں تقریبا 67 فیصد اضافہ ہوا۔ملک میں خام تیل اور پیٹرولیم مصنوعات کی کھپت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اس اضافے کے باعث پیٹرولیم (خام، ریفائنڈ، ایل پی جی، ایل این جی) کی درآمدی قیمت جولائی سے اپریل (مالی سال 2022) کے دوران 14 ارب 50 کروڑ ڈالر تک پہنچ چکی ہے جبکہ مالی سال 2021 کے دوران اسی عرصے میں یہ قیمت 7 ارب 60 کروڑ ڈالر تھی۔
 یہاں قیمت کا اثر غالب دکھائی دیتا ہے لیکن درست قیمت کے تعین کیلئے درآمدی حجم کا معلوم ہونا ضروری ہے جو ابھی مرتب کیا جارہا ہے۔ یعنی یہ بات تو واضح ہوگئی کہ حکومت اب تک مہنگے داموں تیل خرید کر اسے سستے داموں فروخت کررہی تھی۔ بلاشبہ گاڑی اور موٹر سائیکل استعمال نہ کرنے والے غریب لوگ بھی بسوں میں سفر کے ذریعے بلواسطہ پیٹرولیم مصنوعات کا استعمال کرتے ہیں لیکن جو لوگ غریب نہیں تھے وہ بھی اس غیر ضروری سہولت کا فائدہ اٹھا رہے تھے۔تیل پر سبسڈی سے طلب میں اضافہ ہوتا ہے۔ اگر ہم اپنی معیشت کے تناظر میں دیکھیں تو یہ معاملہ صرف تیل پر سبسڈی تک محدود نہیں ہے۔ اس میں وہ بلواسطہ اور بلاواسطہ سبسڈی بھی شامل ہیں جن سے چینی، ٹیکسٹائل، زراعت اور ریئل اسٹیٹ سے تعلق رکھنے والے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
یہاں یہ بات اہم ہے کہ اشیا کی قیمت اس کی قدر کے تعین میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ چینی کی قیمتوں میں ہونے والا اضافہ شوگر مل مالکان کو مزید پیداوار کیلئے راغب کرتا ہے۔ اسی طرح گنے کی قیمت میں اضافہ کسانوں کو مزید گنا اُگانے کی ترغیب دیتا ہے۔ بڑھتی ہوئی قیمتوں سے جہاں ایک جانب صارف پریشان ہوتا ہے تو وہیں دوسری جانب سرمایہ کار کو اس سے زیادہ منافع حاصل ہوتا ہے۔ اس بات سے قطع نظر کے قیمتوں میں اضافہ مارکیٹ پر مبنی ہے یا جان بوجھ کر کیا گیا ہے۔ یہ صارف کیلئے نقصان اور اشیاء تیار کرنے والے کیلئے منافع کا باعث ہوتا ہے۔ہم اپنے خاندان اور حکومتی بجٹ پر تیل کی قیمتوں کے اثرات پر افسوس تو کرتے ہیں لیکن ہمیں عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے کو بھی اس تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے جس کا اوپر ذکر ہوا ہے۔ خام تیل کی قیمتوں میں اضافے کا مطلب ہے کہ اس کی تلاش اور ڈرلنگ پر منافع میں بھی اضافہ ہوگا۔
 اس سے نہ صرف پیٹرولیم کے شعبے میں مزید سرمایہ کاری کے امکانات میں اضافہ ہوگا بلکہ تیل کی پہلے سے زیادہ پیداوار بھی ممکن ہوسکے گی۔ یوں قیمت میں ہونے والا اضافہ ملک کو خود انحصاری کی جانب لے جانے میں مدد دے گا جس سے درآمد پر انحصار کم ہوگا۔ یہی تجزیہ گندم کی قیمت پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ گندم کی قیمت میں اضافے کو صارفین تو ناپسند کرتے ہیں لیکن کسان اس سے خوش ہوتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ حکومت کے پاس امدادی قیمتوں کا ایک نظام ہوتا ہے جس سے وہ کسانوں کو زیادہ سے زیادہ گندم اُگانے کی ترغیب دیتی ہے۔ اگر یوکرین میں جنگ نہ ہوتی تو تیل کی قیمتوں میں اتنا زیادہ اضافہ نہ ہوتا۔ تو کیا یوکرین میں جاری بحران ماضی قریب میں ختم ہوتا دکھائی دیتا ہے؟ تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں اس کے برعکس صورتحال نظر آتی ہے۔
ان حالات کو دیکھتے ہوئے لگتا یہی ہے کہ مستقبل میں تیل اور گندم کی قیمتوں میں اضافہ برقرار رہے گا(دنیا میں گندم کی مجموعی تجارت میں 30 فیصد حصہ روس اور یوکرین کا ہے)۔ اس صورتحال میں (سبسڈی کے ذریعے) تیل اور گندم کی قیمتوں کو کم رکھنا نقصاندہ ثابت ہوسکتا ہے اور اس سے تیل اور گندم کی پیداوار میں بھی کمی آسکتی ہے۔اس کے علاوہ حکومتی خزانہ بھی محدود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت نے کچھ تردد کے ساتھ ہی سہی لیکن دانشمندانہ فیصلہ کرتے ہوئے پیٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ ہونے دیا ہے۔ اب حکومت کو اپنی تمام تر توانائیاں باقیماندہ سبسڈیوں کو ختم کرنے، ادائیگیوں کے توازن کو مستحکم کرنے اور خزانے میں اضافے پر مرکوز کرنی چاہئے۔ (بشکریہ ڈان،تحریر:ریاض الدین، ترجمہ: ابوالحسن امام)