پاکستان گزشتہ 75 سال سے ناکامیوں کا سامنا کر رہا ہے،جن کے اسباب بہت سے ہیں تاہم ان میں سے کچھ اہم ہیں۔ صوبائیت کی لعنت پاکستان کو لاحق سب سے بڑا مرض ہے جو زوال کا باعث بنا ہوا ہے۔ پاکستان کے بانی جناحؒ نے اکیس مارچ 1948ء کو ڈھاکہ میں کی گئی تقریر میں ہمیں صوبائیت کے زہر سے بچنے کی ان الفاظ میں تنبیہ کی تھی کہ اب میں آپ سے کہتا ہوں کہ اس صوبائیت سے چھٹکارا حاصل کریں کیونکہ جب تک آپ اس زہر کو پاکستان کی سیاست میں رہنے دیں گے یقین کریں آپ کبھی بھی ایک مضبوط قوم نہیں بن پائیں گے اور آپ کبھی بھی وہ حاصل نہیں کر پائیں گے جو میری خواہش ہے کہ ہم حاصل کریں۔اس طرح فعال اور موثر طرز حکمرانی بھی ضروری ہے، اس لئے ہمیں صدارتی نظام حکومت کی طرف جانا چاہئے جس میں نامور ماہرین مختلف وزارتوں کی سربراہی بطور وزیر اور سیکرٹری ہوں۔ ان کا تقرر انتخابی عمل کے بجائے خالصتاً اہلیت کی بنیاد پر ہو۔
دیانتدار نامور افراد پر مشتمل افراد کی ایک مشاورتی کونسل ہونی چاہئے جو صدر کے نامزد افراد کی سکریننگ کرے تاکہ صاف ستھرا حکومتی نظام یقینی بنایا جا سکے اور صدر مملکت اِس نظام پر نظر رکھ سکیں۔ پاکستان کی دوسری سب سے بڑی ناکامی بوسیدہ نظام تعلیم ہے۔ ہماری آبادی کا تقریباً 67فیصد تیس سال سے کم عمر ہے۔ ہمیں تعلیم‘ سائنس‘ ٹیکنالوجی اور انٹرپرینیورشپ میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنی چاہئے جس کے ذریعے نوجوانوں کی تخلیقی صلاحیتوں سے فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے۔ اِس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے ہمیں تعلیمی ایمرجنسی (ہنگامی حالات) کا اعلان کرنے کی ضرورت ہے۔ قومی سطح پر آن لائن اساتذہ کی تربیت اور سرٹیفیکیشن پروگرام کے منصوبے پہلے ہی تیار کیے جا چکے ہیں‘ جو کہ طلب پر مبنی ہیں اور ہر معلم کو سیکھنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔
آن لائن فاصلاتی تعلیم کے پروگرام کے لئے بھی منصوبے تیار ہیں جو کہ معیاری تعلیم فراہم کرنے کے لئے دس لاکھ سکول سے باہر بچوں اور پچاس ہزار سرکاری سکولوں کو جوڑنے کے لئے اسلام آباد میں بیک وقت شروع کئے جا سکتے ہیں۔ اِسی طرح سمارٹ ڈیوائسز اور اچھے انٹرنیٹ کی سہولت طلبہ کو پاکستان میں کہیں سے بھی تعلیم و تربیت میں حصہ لینے کا موقع فراہم کر سکتی ہے یعنی طلبہ اپنے سوالات آن لائن ارسال (پوسٹ) کر سکتے ہیں جن کے جوابات آن لائن (لائیو) ٹیچر فوری طور پر دیں گے۔ اِس طرح درس و تدریس ایک نئے دور میں داخل ہو سکتی ہے۔پاکستان کی تیسری بڑی ناکامی اس کی تحقیق اور ترقی کے شعبوں میں ہے جہاں سرکاری ادارے نجی شعبے کو شریک سفر نہیں کرتے۔ اِس صورتحال پر قابو پانے کے لئے پرائیویٹ سیکٹر کو اہم کردار ادا کرنا ہوگا اور حکومت کو پرائیویٹ سیکٹر میں ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔
یہ ترقی یافتہ ممالک اور ابھرتی ہوئی معیشتوں جیسا کہ تائیوان‘ سنگاپور‘ کوریا اور یہاں تک کہ چین جیسی بڑی معیشتوں کی کامیابی کی کلید رہی ہے۔ درحقیقت چین میں ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے کل اخراجات کا تقریباً ستر فیصد نجی شعبے سے آتا ہے جبکہ کوریا میں یہ تقریباً پچھتہر فیصد‘ جرمنی میں تقریباً ستر فیصد اور امریکہ میں اڑسٹھ فیصد ہے۔ پاکستان میں یہ ایک فیصد سے بھی کم ہے‘ جو ہمارے قومی منصوبہ سازوں کے ناقص ویژن کو اجاگر کر رہا ہے کہ جنہوں نے قوم کی تعمیر کے عمل میں نجی شعبے کی تحقیق اور ترقی جیسے اہم کردار کو کماحقہ نہیں سمجھا۔پرائیویٹ سیکٹر کی طرف سے حکومتی فنڈنگ کے ذریعے ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ اخراجات میں اضافہ نئی ٹیکنالوجیز کے حصول میں مدد کرے گا اور پرائیویٹ سیکٹر میں تعلیمی سکالرز کے لئے ملازمتیں پیدا ہوں گی تاکہ نئی ویلیو ایڈڈ مصنوعات تیار اور برآمد کی جا سکیں۔ صنعت میں جدت اور کاروبار کو فروغ دینے کے لئے نجی شعبے کے کنٹرول میں ایک بڑا وینچر کیپٹل فنڈ قائم کیا جانا چاہئے تاکہ نئے سٹارٹ اپس (نئے کاروبار) کو فروغ دیا جاسکے۔ ٹیکنالوجی پارکس اور بزنس انکیوبیٹرز بھی قائم کئے جائیں۔
نئی اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز جو پاکستان کو آگے بڑھنے میں مدد کر سکتی ہیں۔ ان میں مصنوعی ذہانت‘ انرجی سٹوریج سسٹمز‘ نیکسٹ جنریشن جینومکس‘ نینو ٹیکنالوجی‘ منرل ریسورس انجینئرنگ اور ایڈوانسڈ ایگریکلچر شامل ہیں۔ ایسے شعبوں میں محتاط سرمایہ کاری پاکستان کو غربت اور محرومی کے زنجیروں سے نکالنے میں مدد دے سکتی ہے۔ نئی اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز میں نجی شعبے کی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے لئے طویل مدتی ٹیکس مراعات دینے کی ضرورت ہوگی تاکہ پاکستان اعلیٰ ٹیکنالوجی کی مصنوعات کی تیاری اور برآمد میں سرفہرست ملک بن جائے۔آج پاکستان ایک اہم موڑ پر کھڑا ہے۔ آگے بڑھنے اور ان میں سے کچھ اصلاحات کو حاصل کرنے کے لئے‘ اگلی حکومت کو پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنا ہو گی تاکہ وہ آئین میں ضروری تبدیلیاں لا سکے۔ ہم 75سال ضائع کر چکے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ نظام حکومت کو صدارتی نظام میں تبدیل کرتے ہوئے دیانتدار رہنما کا انتخاب کیا جائے۔ (مضمون نگار سابق وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کے بانی سربراہ ہیں۔ بشکریہ: دی نیوز ترجمہ: ابوالحسن امام)