موبائل ٹیکنا لوجی اور اخلاقی اقدار

 وطن عزیز کا معاشرہ بڑی تیزی کیساتھ اپنی اخلاقی اقدار کھو رہا ہے اس کی یقینا اور بھی کئی وجوہات ہوں گی پر موبائل ٹیکنالوجی کے ذریعے جس تیزی سے ناظرین کو برین واش کیا جا رہا ہے وہ نہایت تشویش ناک ہے‘ آئے دن  بے راہ روی کے شکار افراد جس درندگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں ان کی ذہنی پرورش میں سوشل میڈیا پر مختلف پروگراموں میں دکھائی جانے والی بے حیائی سے بھرپور پروگراموں کا بڑا ہاتھ ہے‘انتہا پسندی نے بھی اس ملک کی چولوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے‘ سنسرشپ نامی کوئی شے اس وقت ملک میں نہیں ہے‘ سنسرشپ کے مخالفین آزادی رائے کا راگ الاپتے ہیں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ میڈیا پر  مادر پدر آزادی ملک کی نئی نسل کیلئے سم قاتل ثابت ہوتی ہے کیوں کہ کچے اذہان  اچھی بری بات کا فوری اثر لیتے ہیں‘  انتہا پسندی اور عدم برداشت کو ازحد عام کر دیا گیا ہے‘مندرجہ بالا دو قباحتوں 
کے خاتمے کیلئے قوم اور حکومت دونوں کو ضروری اقدامات اٹھانے ہوں گے‘ ایسا کرنے سے اس ملک کے کئی مسائل ازخودحل ہو سکتے ہیں‘ پولیس کے نچلے کیڈرز میں فوراً سے پیشتر بھرتی کے نظام کو ان خطوط پر منظم کیا جائے کہ جن کے تحت افواج پاکستان میں بھرتی ہوتی ہے‘ ان کی بھرتی میں کسی سیاسی عمل دخل کی اجازت نہیں ہونی چاہیے ملک میں ممنوعہ بور کے تمام اسلحہ پر فوراً اس قسم کی قانونی پابندی لگائی جائے کہ یہ اسلحہ پرائیویٹ ہاتھوں میں بالکل نہ ہو‘ فائر بریگیڈ سسٹم کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے اور یہ 24گھنٹے متحرک رہے‘سڑکوں پر روزانہ ٹریفک کے حادثات میں درجنوں افراد لقمہ اجل بن رہے ہیں یہ بھی گڈ گورننس کے فقدان کی وجہ سے ہو رہا ہے‘کچھ ذکر کھیلوں کا ہو جائے نامور کھلاڑی کھیلوں کی دنیا میں گزشتہ ایک سو سال کے لگ بھگ عرصے میں بعض ایسے کھلاڑی پیدا ہوئے ہیں کہ جن کا پھر دنیا نے آج تک ثانی نہیں دیکھا‘سکواش کے کھیل سے اس قسم کے کھلاڑیوں کا ذکر شروع کرتے ہیں‘ ہاشم خان جیسا عظیم کھلاڑی پھر کسی ماں نے جنا نہیں‘ان کا تعلق پشاور چھاؤنی کے قریب واقع ایک چھوٹے سے گاؤں کے ساتھ تھا کہ جو نواں کلی کے نام سے مشہورہے‘ گو کہ ہاشم خان کے دیکھا دیکھی ان کے خاندان کے کئی دوسرے افراد نے بھی سکواش کی دنیا میں نام کمایا 
‘پر یہ حقیقت ہے کہ وہ اس مقام تک نہ پہنچ سکے کہ جو ہاشم خان کا خاصا  تھا اعظم خان‘ روشن خان‘جہانگیر خان‘ جان شیر خان‘ ہدایت جہاں‘ قمر زمان‘محب اللہ خان۔یہ سب ہاشم خان کے خاندان سے تھے‘ ہاکی کے میدان میں غیر منقسم ہندوستان کے دھیان چند نامی کھلاڑی جیسا سینٹر فارورڈ دنیا نے پھر نہ دیکھا‘ برلن  جرمنی میں 1936ء کے ورلڈ اولمپکس کے فائنل میچ میں ہٹلر دھیان چند  کے کھیل سے اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے اسے جرمنی کی شہریت کی پیشکش کی‘جو دھیان چند نے قبول نہ کی کرکٹ کے کھیل میں آسٹریلیا کے سر ڈانلڈ بریڈمین جیسا بلے باز دوبارہ نہیں پیدا ہوا اور فٹبال میں ارجنٹینا کے میراڈونا جیسا عمدہ فٹبالر دنیا نے پھر نہ دیکھا اوپر کی سطور میں ہم نے جو ناموں کا ذکر کیاہے وہ یقینا تمام جوان سال کھلاڑیوں کیلئے رول ماڈل کا درجہ رکھتے ہیں۔