غور طلب اہم امور 

اس ماہ کی سب سے اہم خبر یہ ہے کہ پاکستان کے سر پر  FATFگرے لسٹ کی جو تلوار لٹک رہی تھی وہ ہٹا لی گئی ہے‘خدا لگتی یہ ہے کہ ہر سطح پر ٹیم ورک کو آرڈی نیشن اور عزم کی وجہ سے اس بلا سے ہماری جان چھوٹی پر اب یہ ضروری ہے کہ انٹی منی لانڈرنگ  قانون پر ہم سختی سے کار بند رہیں کیونکہ اس ضمن میں ہماری مانیٹرنگ ہوتی رہے گی۔یورپی کونسل کے سربراہ چارلس مائکل کا یہ بیان بڑا معنی خیز ہے کہ یورپی ممالک چین کے ساتھ محاذ آرائی سے بچنا چاہتے ہیں ادھر چینی صدر شی جن پنگ نے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے اور بیجنگ پہلے سے زیادہ پر اعتماد دکھائی دے رہا ہے۔ چین کی بڑی مارکیٹوں تک رسائی کی خواہش کے معاملے میں یورپی ممالک مشترکہ موقف اختیار کرنے میں مشکلات کا شکار نظر آرہے ہیں یورپی ممالک کا یہ موقف امریکہ کی چین کے بارے میں پالیسی سے مطابقت نہیں رکھتا جو بڑی جارحانہ دکھائی دکھائی دیتی ہے۔ اس عالمی طاقتوں کے درمیان رسہ کشی جاری ہے اور اس کے اثرات تمام ممالک پر مرتب ہو رہے ہیں ایسے حالات میں وہی ممالک کامیاب ہوں گے جنہوں نے اپنے مفادات کا تحفظ کیا اور عالمی منظرنامے میں اپنی اہمیت کو دوسرے سے تسلیم کروایا۔

 یہ امر باعث اطمینان ہے کہ پاکستان اس وقت ایک متوازن خارجہ پالیسی اپنائے ہوئے ہے اور اس نے جہاں امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو برقرار رکھا ہے وہاں روس کے ساتھ بھی خوشگوار اور دیرینہ تعلقات قائم کرنے میں مصروف ہے‘اقوام متحدہ کی ڈپٹی سیکرٹری جنرل کی یہ تجویز بڑی صائب  ہے کہ امن سازی عمل میں خواتین کی شمولیت کو فروغ دیا جائے انہوں نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ 1995 اور 2019 کے درمیان امن عمل میں اوسطا ًصرف 13 فیصد مذاکرات کا 8 فیصد ثالث اور6فیصد دستخط کنندگان میں خواتین شامل تھیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں خواتین کی شمولیت کو فروغ دینے کے واسطے انتخابی نگرانی سکیورٹی کے شعبے میں اصلاحات تخفیف اسلحہ اور انصاف کے نظام میں مکمل صنفی برابری کے واسطے اقدامات لینے کی ضرورت ہے۔

 ڈپٹی جنرل سیکرٹری کی مندرجہ بالا تجاویز غور طلب ہیں کیونکہ دنیا میں خواتین  کے ٹیلنٹ کو اہم کاموں  میں بروے کار لا کرہی ہم کئی مسائل کو بطریق احسن حل نکال  سکتے ہیں۔ یہ اعلان تو کچھ عرصہ پہلے کر دیاگیا تھا  کہ قصہ خوانی پشاور شہر میں واقع دلیپ کمار اور راج کپور کے آبائی گھروں کو خرید لیا گیا ہے اور انہیں میوزیم میں تبدیل کیا جا رہا ہے پر اس کے بعد ایک خاموشی سی طاری ہے۔ کسی نے عوام کو یہ نہیں بتایا کہ ان میوزیم میں  ان دو بڑے فنکاروں کی زندگی سے جڑی ہوئی کیا کیا چیزیں شو کیسوں میں نمائش کیلئے رکھی جائیں گی اور ان کو بمبئی سے حاصل کرنے کیلے کیا طریقہ کار اپنایا جائے گا کیونکہ ان دو اداکاروں نے تو اپنی زندگی کا بیشتر حصہ ممبئی میں گزارا۔ قصہ خوانی میں واقع ان مکانوں میں یا تو وہ پیدا ہوئے تھے اور بچپن کے ابتدائی دن انہوں نے ان گھروں میں گزارے تھے۔کیا اس ضمن میں میوزیمز بنانے والوں نے دلیپ کمار کی اہلیہ سائرہ بانو سے کوئی رابطہ کیا ہے یا راجکپور کے ان لڑکوں سے گفت و شنید کی کہ جو بقید حیات ہیں۔ دلیپ کمار جب 1988میں پشاور آئے تو انہوں نے کہا تھا کہ راج کپور کی بھی خواہش ہے کہ وہ زندگی میں ایک بار اپنا گھر اور وہ محلہ دیکھنے جائے کہ جہاں اس کی جم پل ہوئی تھی پر زندگی نے اس سے وفا نہ کی اور وہ اسی سال چل بسے۔