کرکٹ کے بخار کو نہ کرونا کم کر سکا ہے اور نہ ڈینگی کی وبا۔ آج بھی عالمی سطح پر دنیا کے کئی ممالک میں کرکٹ کے مقابلے ہو رہے ہیں نہ جانے ہمیں آج پاکستان کی وہ کرکٹ ٹیم کیوں یاد آ گئی ہے کہ جس نے 1954 میں انگلستان کی اس وقت کی مایہ ناز کرکٹ ٹیم کو اگست کے ماہ کے دوران اس کے ہوم گرانڈز پر ہرا کر کرکٹ کی دنیا میں پاکستان کو روشناس کروایا اور اپنی شناخت کروائی اور اپنے لئے ٹیسٹ سٹیٹس test status حاصل کیا۔یاد رہے کہ ان دنوں انگلستان کی کرکٹ ٹیم کو ایم سی سی کہا جاتا تھا اور ابھی ون ڈے یا ٹونٹی ٹونٹی کا چلن عام نہیں ہوا تھا۔ 1954 کی اس پاکستانی کرکٹ ٹیم کا آج کوئی کھلاڑی بھی بقید حیات نہیں ہے۔اس ٹیم کے کھلاڑیوں کو آج اگر اس کالم کے توسط سے یاد کر لیا جاے تو بے جا نہ ہوگا اس ٹیم کی قیادت عبدالحفیظ کاردار کر رہے تھے جو تھے تو آل راؤنڈرپر ان کہ وجہ شہرت ان کی لیڈرشپ تھی کرکٹ کے مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ ان جیسا کپتان پاکستان کی کرکٹ ٹیم نے پھر نہیں دیکھا۔پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی ان سے خوف بھی کھاتے اور ان کی آنکھوں میں ان کیلے بڑی عزت بھی تھی۔اس ٹیم کے اوپننگ بلے بازوں کے نام تھے حنیف محمد اور علیم الدین ون ڈاؤن کی پوزیشن پر کھیلنے والے بیٹسمین کا نام تھا وقار حسن۔ ان کے بعد جو بلے باز بیٹنگ کیلے آتے ان کے نام تھے مقصود احمدِ شجاع الدین، کاردار اور وزیر محمد۔ جہاں تک باؤلنگ کا تعلق تھا خان محمد اور فضل محمود جو فاسٹ باؤلرز تھے باؤلنگ کا آغاز کرتے ان کے بعد بوقت ضرورت محمود حسین اور ذوالفقار احمد کا بھی استعمال کیا جاتا۔کاردار خود بھی باؤلنگ کرتے تھے۔فضل محمود جیسا خوبصورت کرکٹر پاکستان کی کرکٹ ٹیم میں پھر نہیں آیا اور ان کی دوسری وجہ شہرت ان کے لیگ کٹرز leg cutters تھے کہ جن کو کوئی بھی ایم سی سی کا بلے باز کھیل نہ پاتا پاکستان نے لندن کے اوول کے میدان میں اپنے 1954 کے دورے کے دوران ایم سی سی کو شکست دی تھی اس فتح میں فضل محمود کے لیگ کٹرز کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ اب کچھ تذکرہ عالمی منظر نامے کا ہوجائے۔ اپنی خارجہ پالیسی میں امریکہ کبھی ماشہ ہو جاتا ہے تو کبھی تولہ اس کی خارجہ پالیسی میں دوام نہیں۔امریکی صدر کے پاکستان کے خلاف ایک زہریلا بیان دینے کے چند دن بعدہی آج کل پاکستان کی حمایت میں بیان آرہے ہیں۔ اگلے روز امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ایک سینئر اہلکار نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف مہم میں امریکہ پاکستان کا شراکت دار ہے۔خدا لگتی یہ ہے کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی ہمیشہ تضادات کا شکار رہی ہے اور اپنے مفادات کے حصول کیلئے یہ کسی بھی حد تک جاتا ہے۔ شی جن پنگ تیسری مرتبہ بھی چین کے صدر چن لئے گئے ہیں۔ خدا لگتی یہ ہے کہ ان کے اقتدار میں آنے کے بعد چین نے سیاسی معاشی سائنسی اور تعلیمی میدانوں میں حیرت انگیز ترقی کی ہے جس پر ایک دنیا انگشت بدندان ہے یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی ملک کی ترقی کیلئے اس کی قیادت کے اقتدار میں ایک مناسب تسلسل ضروری ہے تاکہ جو ترقیاتی منصوبے اس نے وضع کئے ہیں وہ پایہ تکمیل تک پہنچ سکیں۔
اشتہار
مقبول خبریں
پشاور کے پرانے اخبارات اور صحافی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سٹریٹ کرائمز کے تدارک کی ضرورت
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
فرسودہ فائر بریگیڈ سسٹم
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
معیشت کی بحالی کے آثار
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امریکہ کی سیاسی پارٹیاں
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
ممنوعہ بور کے اسلحہ سے گلو خلاصی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سعودی عرب کی پاکستان میں سرمایہ کاری
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امریکی پالیسی میں تبدیلی؟
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سموگ کا غلبہ
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سابقہ فاٹا زمینی حقائق کے تناظر میں
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ