انگلستان میں تبدیلی

انگلستان میں ایک بھارتی نژاد فرد رشی سناک وزیر اعظم بن گیا ہے جب کہ امریکہ کی نائب صدر کمالا حارث کے بارے میں سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ عین ممکن ہے کہ وہ اگلے دو تین ماہ میں امریکہ کی صدارت کا عہدہ سنبھال لیں‘کہنے کا مقصد یہ ہے کہ مغربی دنیا کے ان دو اہم ممالک میں ہمارے ازلی دشمن ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد کا بر سر اقتدار آ جانا سیاسی اہمیت کے حامل واقعات ہوں گے اور ہمارے ارباب بست و کشاد کو اب خارجی محاذ پر زیادہ بیدار اور متحرک رہنے کی ضرورت ہو گی امریکہ روز اول سے ہی اسرائیل کی انگشت تھامے ہوئے ہے کہ کسی نہ کسی بات کو بہانہ اور جواز بنا کر ہمارے ایٹمی اثاثوں کو ختم کرائے یا دنیا کو یہ تاثر دے کہ پاکستان ان کی از خود تسلی بخش نگرانی نہیں کر سکتا‘ امسال پانچ دسمبر کو جی سیون ممالک کی جانب سے روس کے خام تیل کی قیمتوں کو محدود کئے جانے کا میکینزم نافزالعمل ہو جائے گا‘ لیکن اس کے با وجود روس اس میکینزم کو اور اس کے اثرات کو توڑنے میں کامیاب ہو جائے گا‘ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں بڑی طاقتوں کی ترقی پذیر ملکوں کے خلاف پالیسیوں پر نظر رکھنی ہو گی‘اب ذرا ایک نظر ملکی حالات پر بھی ڈالتے ہیں۔

وطن عزیز کے کسی بھی دن کے اخبارات کا مطالعہ کریں تو چند ایسے معاملات ہیں کہ جو تواتر سے اس ملک میں رونما ہو رہے ہیں اور ان میں کمی کے بجائے اضافہ ہو رہا ہے‘ مثلًا ٹریفک کے حادثات میں روزانہ درجنوں افراد لقمہ اجل بن رہے ہیں‘ نوجوانوں میں بے راہ روی اور معاشرے میں منشیات کے استعمال میں اضافے اور اس کو فروخت کرنے والے افراد کی تعداد میں کمی دیکھنے میں نہیں آ رہی‘ ہم پہلے بھی اس کالم کے توسط سے یہ گزارش کر چکے ہیں اور ایک بار پھر اس تجویز کو دہراتے ہیں کہ جب تک ملک میں اس قسم کے سخت ٹریفک سے متعلق قواعد لاگو کر کے ان پر سختی سے عمل درآمد نہیں کیا جائے گا کہ جو انگلستان اور سعودی میں نافذ ہیں‘ ٹریفک حادثات میں کمی نہیں آ سکتی‘ اسی طرح اس بات میں دو آراء نہیں ہوسکتیں کہ وطن عزیز میں سوشل میڈیا کو حد درجہ آزادی میسر ہے جو نئی نسل پر زیادہ اثر انداز ہو رہا ہے۔

اس ضمن میں حکومت کو چاہئے کہ ماہرین نفسیات کے علم سے استفادہ کرے اور ابلاغ عامہ خصوصاً سوشل میڈیا کو صحت مند اخلاقی بنیادوں پر استوار کرے‘ بال بچوں کی گیارہ سے لے کر انیس برس تک کی عمر جوکچی عمر کہلاتی ہے اور انگریزی میں اسے ٹین ایج کہا گیا ہے‘ اس عمر کے دوران بچوں پر اچھے اور برے کاموں کے اثرات فوری مرتب ہو جاتے ہیں‘ اگر ان کے والدین اس دوران اچھے کردار کا مظاہرہ کریں گے تو لا محالہ اس کے جو اثرات ان کے بچوں پر پڑیں گے وہ مثبت ہوں گے‘ لہٰذا بچوں کی کردار سازی میں ان کے والدین کے چال چلن کا بہت بڑا ہاتھ ہوتا ہے اسی طرح ان کے اساتذہ کو ان کا روحانی ماں باپ کہا گیا ہے وہ بھی ان کی کردار سازی میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں اسی لئے پرائمری سکولوں کے لئے جو اساتذہ بھرتی کئے جائیں اس میں نہایت احتیاط برتی جائے اگر وہ اخلاقی طور پر کمزور ہوں گے یا کوئی اخلاقی کمزوری ان میں پائی جاتی ہو گی تو وہ بچوں کی اچھی تربیت کیسے کر پائیں گے۔