اس وقت پوری دنیا کئی طرح کے بحرانوں کی زد میں ہے اور جہاں ایک طرف اگر یوکرین اور روس کی لڑائی جاری ہے تو دوسری طرف عالمی کساد بازاری نے ممالک کی معیشتوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ایسے حالات میں وطن عزیز کو بھی کئی طرح چیلنجوں کا سامنا ہے اورحالیہ سیلابوں سے زراعت کو ہونے والے نقصانات کی تلافی اور ملک میں غذائی قلت کا مقابلہ کرنا ہے۔روس کی طرف سے پاکستان کو گندم برآمد کرنے کی پیشکش اہم ہے۔گزشتہ روز روس نے پاکستان کو گندم درآمد کرنے کی پیشکش کردی۔وفاقی وزیر برائے قومی غذائی تحفظ اور تحقیق طارق بشیر چیمہ نے روسی وفد سے ملاقات کی جس میں وفد نے بارٹر ٹریڈ کی صورت میں فوڈ باسکٹ کموڈٹیز کا تبادلہ کرنے پر بھی آمادگی کا ظاہر کی‘وفد میں پروڈنٹ نمائندے یوسف آصف اور حامد علی، ایگریکلچر اتاشی الیکسی کدریاوٹسیف اور اتاشی روسی ایمبیسی الیگزینڈر شامل تھے۔ روسی پروڈنٹورگ یوسف آصف نے کہا کہ پاکستان اور روس زراعت میں تجارتی تعاون بڑھانے سے باہمی طور پر فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ان کا کہنا تھا روس گندم کا سب سے بڑا عالمی برآمد کنندہ ہے۔
حکومت سے حکومت فریم ورک کے تحت گندم کی مقامی طلب کو پورا کرنے میں پاکستان کی مدد کر سکتا ہے۔روسی پروڈنٹورگ یوسف آصف نے کہا کہ پاکستانی چاول اچھے معیار کے ہیں اور روس پاکستان سے چاول کی درآمد بڑھانے کا منتظر ہے‘ روس پاکستان میں روس کو چاول کے مجاز برآمد کنندگان کی تعداد میں اضافہ کر رہا ہے۔علاوہ ازیں وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ نے وفد کا خیرمقدم کرتے ہوئے بتایا کہ حالیہ بارشوں اور سیلاب سے زرعی شعبے کو بہت زیادہ نقصان ہوا ہے، بارشوں اور سیلاب سے تباہ کاری کا حتمی تخمینہ کا ابھی انتظار ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ روس کی طرف سے پاکستان کو گندم کی فراہمی ایک نہایت ہی اچھی خبر ہے پر دکھ کی بات یہ ہے کہ پاکستان جیسا زرعی ملک آج ذراعت کے میدان میں اتنا بے بس ہو گیا ہے کہ وہ بیرون ملک سے گندم خریدنے پر مجبور ہو گیاہے۔دوسری طرف یہ ایک اہم پیش رفت ہے کہ بالاخر پاکستان نے روس کے ساتھ معاشی تعلقات کو مضبوط کرنے کا فیصلہ کیا اور اس سلسلے میں حالات کا تقاضا بھی یہی تھا کہ مشکل معاشی حالات سے نکلنے کیلئے ملکی مفادات کوپیش نظر رکھتے ہوئے اہم فیصلے کئے جائیں۔
خیبر پختونخوا کی حکومت کا یہ فیصلہ بڑاصائب فیصلہ ہے جس کے تحت اس نے صوابدیدی فنڈز کے استعمال اور نان سیلری اخراجات پر کٹ لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ مالی بحران کے پیش نظر تمام سرکاری دفاتر اور رہائش گاہوں کی دیکھ بھال اور مرمت پر بھی پابندی لگانے کا فیصلہ درست ہے اسی طرح صوبائی حکومت کا غیر قانونی تجاوزات کے خلاف موثر کاروائی کا حکم بھی بجا ہے پر جو بات سب سے ضروری ہے وہ یہ ہے کہ ان احکامات پر عمل درآمد کی مانیٹرنگ کی جائے اور جو سرکاری اہلکار ان احکامات کو بجا لانے میں غفلت اور کوتاہی کا مرتکب پایا جائے اسے قرار واقعی سزا بھی دی جائے۔ اب ذرا کھیلوں کی دنیا کا تذکرہ ہوجائے جہاں ان دنوں عالمی ٹی ٹوئنٹی میچز کا چرچا ہے اورپاکستانی ٹیم کی کارکردگی پر دنیا کی نظر ہے۔ ایک وقت تھا کہ جس طرح آج کرکٹ کی دنیا میں پاکستان پر سب کی نظریں جمی رہتی ہیں اسی طرح ہاکی کی دنیا پر پاکستان کا راج تھا۔برصغیر کی تقسیم سے قبل تو دنیاے ہاکی پر صرف ہندوستان کی ہاکی ٹیم کا نام لیا جاتا تھا۔ جو 1928 سے لے کر1947 تک ہونے والے ہر ورلڈ اولمپکس گیمز میں سونے کا تمغہ جیتا کرتی تھی ان دنوں عالمی سطح پر ورلڈ اولمپکس گیمز اور یا پھر ایشیائی اولمپکس گیمز میں ہی ھاکی کے میچ دوسرے کھیلوں کی طرح ہر چار سال بعد منعقد ہوا کرتے تھے۔
بلا شبہ اس دور میں بھی ہندوستان کی ہاکی ٹیم میں کئی مسلمان کھلاڑی کھیلا کرتے جن میں لال شاہ بخاری اور کرنل دارا جیسے نام قابل ذکر ہیں۔قیام پاکستان کے بعد پاکستان ہاکی فیڈریشن کا قیام عمل میں لایا گیا اور اس نے 1948 میں لندن میں ہونے والے ورلڈ اولمپکس میں شرکت کیلئے پاکستان کی ہاکی ٹیم تیار کی اس ٹیم نے لندن ہاکی کے عالمی مقابلوں میں پاکستان کی شناخت کروائی۔ ٹھیک چار سال بعد 1952 میں ہیلسنکی کے مقام پر ورلڈ اولمپکس ہوئے تو ان میں پاکستان کی ہاکی ٹیم نے تیسری پوزیشن حاصل کر کے کانسی کا تمغہ جیتا اور اس طرح عالمی ہاکی میں پاکستان کے عروج کا زمانہ شروع ہو جو ایک لمبے عرصے تک جاری رہا۔ 1956 کے ورلڈ اولمپکس گیمز میں جو آسٹریلیا میں منعقد ہوئے پاکستان کی ہاکی ٹیم نے چاندی کا تمغہ جیتا اور اس کے بعد1960 میں روم میں ہونے والے ورلڈ اولمپکز گیمز میں انجام کار پاکستان نے سونے کا تمغہ جیت کر دنیائے ہاکی میں پہلی پوزیشن حاصل کر لی۔
ہاکی میں کامیابیوں کا عالمی سطح پر یہ سفر جاری و ساری رہا اور اس کے بعد بھی پاکستان کی ہاکی ٹیم نے کئی ورلڈ اور ایشیائی اولمپک گیمز میں سونے کے تمغے جیتے کامیابی کے اس سفر میں جن ہاکی کے کھلاڑیوں نے دنیائے ہاکی میں اپنے لئے ایک منفرد مقام بنایا ان کے بارے میں جاننا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔ حمید عرف حمیدی جو سنٹر فارورڈکی پوزیشن پر کھیلتے تھے۔رائٹ آؤٹ نور عالم لیفٹ آؤٹ،مطیع اللہ رائٹ ان، نصیر بندہ لیفٹ ان‘وحید لیفٹ ہاف‘حبیب کڈی سنٹرہاف‘انوار احمد خان، عاطف جو فل بیک تھے ذکاء الدین جو رائٹ ان تھے اسی طرح چند اورکھلاڑیوں کا نام نہ لیا جاے تو زیادتی ہو گی اصلاح الدین‘شہناز شیخ‘حسن سردار‘ سمیع اللہ جو فارورڈ لائن میں کسی بھی پوزیشن میں کھیل سکتے تھے‘ 1990کے بعد سے ہماری ہاکی ٹیم کا زوال شروع ہوا ہے جس سے ابھی تک ہم ریکور نہیں کر پائے۔ خدا لگتی یہ ہے کہ ہم نے ملک میں آسٹرو ٹرف کو کافی دیر سے متعارف کروایا۔ ساری دنیا آسٹرو ٹرف پر کھیلتی تھی اورہم گھاس کے گراؤنڈز پر۔ یاد رہے کہ آسٹرو ٹرف پرہمارے کھلاڑیوں کو کھیلنے کا بہت کم تجربہ تھا۔جس سے ہماری ہاکی ٹیم کی کارکردگی بری طرح متاثر ہوئی۔