وزیراعظم صاحب کے اس بیان سے شاید ہی کوئی باشعور فرد اختلاف کرے کہ ہمیں اسی دنیا میں رہنا ہے اور بشمول امریکہ تمام ممالک سے ہمارے تعلقات اچھے ہونے چاہئیں۔ جہاں تک امریکہ سے تعلقات کا تعلق ہے اس موضوع پر ماضی میں ایوب خان نے اپنی کتاب فرینڈز ناٹ ماسٹرزfriends not masters میں قلم اٹھایا تھا۔خدا لگتی یہ ہے کہ جس طرح ماضی میں دنیا دو پاور بلاکس میں منقسم تھی آج بھی کم وبیش وہی صورت حال ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد اگر ایک طرف سوویت یونین دنیا میں کمیونسٹ بلاک کی قیادت کر رہا تھا تو دوسری جانب امریکہ اس کے مد مقابل کھڑا تھا اور ان دونوں ممالک میں ایک سرد جنگ شروع ہو گئی تھی۔ ماسکو نے اپنے ہم خیال ممالک پر مشتمل ممالک کو وارسا پیکٹ کے نام سے قائم کردہ ایک عسکری اتحاد کا رکن بنا دیا تھا تو دوسری طرف امریکہ نے اپنے اتحادیوں کو نیٹو کے نام سے قائم کردہ ایک عسکری اتحاد میں شامل کر لیا تھا۔اس وقت بھی ایک بار پھر دنیا دو بلاکوں میں تقسیم ہوگئی ہے اور ایک طرف اگر روس اور چین ہیں تو دوسری طرف امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک ہیں۔ یعنی نیٹو اب ایک بارپھر روس کے مقابلے میں صف آراء ہے۔ ایسے حالات میں ہمارے لئے ایک غیر جانبدارانہ خارجہ پالیسی پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے۔آج ایک جانب امریکہ ماضی کی طرح پھر کمیونسٹ ممالک کے درپے ہے پر اب کی دفعہ اسکاسامنا صرف روس سے نہیں آج چین بھی روس کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہے اور وہ ان دونوں ممالک کے مقابلے میں اپنی قیادت میں ایک مضبوط بلاک تشکیل دینے میں کوشاں ہے۔ چونکہ اس کے سیاسی مشن کی کامیابی میں پاکستان کا اشتراک اس کے لئے کافی ممد و معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ لہٰذا وہ یہ کوشش کر رہا ہے کہ پاکستان کو کسی نہ کسی سے اپنا ہم خیال بنائے۔ہمیں امریکہ سے تعلقات بالکل خراب نہیں کرنے چاہیں پر یہ بھی غلط بات ہو گی کہ ہم اس کیلئے علاقائی طاقتوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو خراب کریں۔ماضی میں ہمارے تعلقات روس کے ساتھ اگر خوشگوار نہیں تھے تو اس کی وجہ امریکہ کی دوستی تھی۔ورنہ ایسے حالات میں رو س نے پاکستان میں سٹیل مل جیسا اہم منصوبہ پروان چڑھایا جب پاکستان مخالف بلاک میں تھا۔ یہ سٹیل مل ہے جس کی بدولت ہم میں ٹینک بنانے کی صنعت میں خود کفیل ہوئے اور چین کی مدد سے ہم نے کئی طرح کے ٹینک بنانے میں کامیابی حاصل کی۔ اسی طرح روس کے پاس وسائل کی کمی نہیں اگر ہم روس کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مضبو ط کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے بہت سے مسائل حل ہوں۔ خاص طور پر توانائی کے شعبے میں مسائل اور مشکلات کو ہنگامی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ جس میں روس اور وسطی ایشیائی ممالک ہماری مدد کرسکتے ہیں۔دوسری صورت میں اگر ہم علاقائی طاقتوں کے ساتھ مضبوط معاشی تعلقات استوار نہیں کرتے تو اس سے معاشی طور پر استحکام کا خواب شرمندہ تعبیر ہونے میں کامیابی مشکل ہوجائے گی۔اب جب بات توانائی کی چل نکلی ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت کسی بھی ملک کی ترقی کا پیمانہ اس کے پاس توانائی کے وسائل کی فروانی ہے۔ ہمیں قدرت نے توانائی کے بیش بہا وسائل سے نوازا ہے تاہم ان سے استفادہ کرنے کی ضرورت ہے۔دوسری صورت میں ہماری معیشت مضبوط نہیں ہوسکے گی۔ اس وقت گیس کا شعبہ سب سے زیادہ نقصان میں ہے کیونکہ جتنی قیمت کی گیس ملک کو مل رہی ہے وہ صارفین سے وصول نہیں کی جا رہی گیس کی سپلائی نہ ہونے کی وجہ سے پاور پلانٹ بند ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے بجلی کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔اس لئے اگلے روز کہوٹہ کے قریب 500 کے وی مائرہ سوچنگ سٹیشن کا افتتاح ایک بروقت اقدام ہے اس پر 7 ارب روپے کی لاگت آئیگی اور یہ 80 ایکڑ اراضی پر تعمیر کیا جائے گا اس سے لوڈ شیڈنگ میں اور بجلی کی قیمتوں میں بھی کمی آئے گی۔ اسی طرح یہ خبر بھی خوش آئند ہے کہ عالمی بنک سوات میں 245 میگاواٹ کے دو پن بجلی منصوبے شروع کر رہا ہے جن سے صوبے کو سالانہ 13 ارب سے زائد کی آمدن ہو گی۔ کاش کہ ہمارے حکمران اپنے اپنے دور حکومت میں ڈیم بنانے پر توجہ مرکوز کرتے تو آج یہ ملک لوڈ شیڈنگ کا شکار نہ ہوتا،اب بھی وقت ہے کہ ہم چین کی مدد سے توانائی بحران سے نکلنے کی بھر پور کوشش کریں اور اس مقصد کیلئے چینی ماڈل ہمارے سامنے ہے جس نے روایتی بجلی کے منصوبوں کے ساتھ ساتھ غیر روایتی منصوبوں پرتوجہ مرکوز کی ہوئی ہے اور پانی سے سستی بجلی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ جہاں جوہری بجلی فراوانی سے پیدا کر رہا ہے وہاں ہوا اور سورج کی روشنی سے بجلی پیدا کرنے کے بڑے منصوبوں پر کام کررہا ہے۔ پاکستان خطے کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں سورج کی روشنی سے بجلی پیدا کرنے کی گنجائش کافی زیادہ ہے اور اسے بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ ہوا سے بجلی پیدا کرنے میں بھی وطن عزیز کے کئی خطے مثالی حیثیت رکھتے ہیں۔ بلوچستان اور سندھ کے ساحلی علاقوں میں چلنے والی ہواؤں سے بجلی پیدا کرنے کی طرف توجہ دی جائے تو یہ ایک انقلابی منصوبہ ثابت ہوسکتا ہے۔اس سے نہ صرف موجودہ حالات میں توانائی بحران پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے بلکہ مستقبل کی ضروریات کو پوراکرنے کا خواب بھی شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔
اشتہار
مقبول خبریں
پشاور کے پرانے اخبارات اور صحافی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سٹریٹ کرائمز کے تدارک کی ضرورت
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
فرسودہ فائر بریگیڈ سسٹم
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
معیشت کی بحالی کے آثار
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امریکہ کی سیاسی پارٹیاں
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
ممنوعہ بور کے اسلحہ سے گلو خلاصی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سعودی عرب کی پاکستان میں سرمایہ کاری
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امریکی پالیسی میں تبدیلی؟
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سموگ کا غلبہ
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سابقہ فاٹا زمینی حقائق کے تناظر میں
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ