پاکستانی معیشت میں زیتون کی کاشت کی اہمیت

بڑھتی ہوئی ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث پاکستان کی معیشت اس وقت زبوں حالی کا شکار ہے۔ ماہرین زراعت کا کہنا ہے کہ زیتون کی پیداوار میں اضافہ ملک کی معیشت اور ماحول دونوں کے لئے سود مند ثابت ہو گا۔پاکستان میں پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے بہت سے علاقے جنگلی زیتون کی کاشت کے لیے انتہائی موزوں سمجھے جاتے ہیں۔ان علاقوں میں زیتون کی مختلف اقسام بڑے پیمانے پر کاشت کی جا رہی ہیں، جنہیں مقامی زبانوں یعنی پنجابی میں کہو، پشتو میں خونہ اور بلوچی میں حث کہتے ہیں۔ان علاقوں میں زیتون کو مقامی درخت سمجھا جاتا ہے، جو خودرو ہے اور موافق آب و ہوا میں اس کے درخت تیزی سے پھل دینے لگتے ہیں۔ مگر المیہ یہ ہے کہ دیہی علاقوں میں کسان اور زمیندار زیتون کی افادیت سے پوری طرح واقف نہیں۔اس سے تیل حاصل کرنے اور دیگر غذائی اشیا کی تیاری کے لئے انہیں باقاعدہ تربیت کی ضرورت ہے۔ ایک معتبر دستاویز  جوجنوری1963 میں تحریر کی گئی تھی۔ اس کے مطابق 1866 میں ایک انگریزی افسر نے راولپنڈی میں زیتون کی مختلف اقسام کے لگ بھگ ایک سو پودے لگائے تھے۔اس کے بعد 1964 میں ایوب خان کے دور میں اردن سے منگوا کر راولپنڈی اور گرد و نواح میں مزید پودے لگائے گئے جن پر بھرپور طریقے سے پھل آئے۔ لیکن بعد ازاں زیتون کی کاشت پر مناسب توجہ نہ دینے سے اس کی باقاعدہ پیداوار شروع نہیں ہو سکی۔  2001 میں خیبر پختونخوا میں ترناب اور مردان میں فارم ہاؤس بنا کر زیتون کی پیداو ار بڑھانے کے لئے یونٹس بنائے گئے، اس کے بعد 2012 میں چکوال کو وادی ِزیتون قرار دے کر اس کی کاشت کا ایک بڑا منصوبہ شروع کیا گیا۔ ماہرین زراعت کے مطابق پاکستان میں حالیہ برسوں میں زیتون بہت تیزی سے ترقی کرنے والی غذائی جنس کے طور پر سامنے آیا ہے،،ماہرین زراعت کا کہنا ہے کہ مستقبل میں زیتوں ملک میں جاری معاشی بحران سے نمٹنے میں ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔  کیونکہ پاکستان میں تقریبا دس ملین ایکڑ زرعی زمین زیتون کی کاشت کے لئے موزوں ترین ہے۔ یہ سپین میں زیتون کے زیر ِ کاشت رقبے سے دو گنا ہے۔ واضح رہے کہ سپین دنیا بھر میں زیتون کی پیداوار میں اول نمبر پر ہے‘ پاکستان کے مختلف علاقوں میں 1500 ٹن زیتون کاشت کیا جا رہا ہے، جس سے 830 ٹن تیل حاصل کیا جا رہا ہے۔پیداوار میں تیزی سے اضافے کو دیکھ کر بین الاقوامی زیتون کونسل نے فروری 2022 میں پاکستان کو اپنا ممبر منتخب کر کے مستقبل میں زیتون کی پیداوار بڑھانے کے لئے مکمل تعاون کی یقین دہانی بھی کروائی  ہے‘پاکستان میں اُگنے والے جنگلی زیتون سے نکلنا والا تیل انتہائی اعلی کوالٹی کا حامل ہے۔ اس تیل کی چین، مراکش، تیونس، سپین اور دیگر ممالک میں بہت زیادہ مانگ بھی ہے۔ ماہرین کے مطابق بڑھتی ہوئی ماحولیاتی تبدیلیوں اور جنگلات کی بے دریغ کٹائی کے باعث پاکستان کے محض 5 فیصد رقبے پر جنگلات باقی رہ گئے ہیں۔یہ تناسب ایکو سسٹم اور ماحول کی حفاظت کے لیے مختص کیے گئے بین الاقوامی معیار سے بہت کم ہے۔