عام آدمی کی سواری

اگر تو وزیر اعظم پاکستان کے موجودہ دورہ چین کے دوران ان کی چینی  حکومت سے بات چیت کے نتیجے میں  پشاور تا کراچی کے ریل کے منصوبے اور کراچی سرکلر ریلوے کو سی پیک کا حصہ بنا دیاجاتا ہے تو یہ بہت بڑی بات ہو گی اس سے نہ صرف یہ کہ پشاور تا کراچی تک سفر کرنے والے غریب عوام کا بہت بڑا بھلا ہو گا کراچی کے غریب عوام کو اندرون  شہر سفر کرنے کی بہت بڑی سہولت بھی  مل جائے گی یہ دونوں منصوبے صحیح معنوں میں عوام دوست منصوبے ہیں قیام پاکستان کے بعد ایک لمبے عرصے تک فرنگیوں سے ورثے میں کراچی کو جو  سرکلر ریلوے اور ٹرام کا نظام ملا تھا ان سے کراچی کے عام آدمی کو سفر کی بہت سہولت تھی۔ ریلوے عام آدمی کی سواری ہے اور اسے مضبوط بنیادوں پر استوار کرنا اس ملک کے عام آدمی کے مفاد میں ہے۔اب کچھ تذکرہ عالمی منظر نامے کا ہوجائے جہاں روس کے صدر پیوٹن کا کہنا ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد شاید یہ خطرناک ترین دہائی ہے۔روسی صدر نے مغرب پر ایسا 'خطرناک، خونی اور گندا' کھیل کھیلنے کا الزام لگایا، جو دنیا میں افراتفری کا بیج بونے کا باعث ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا کو 'شاید سب سے خطرناک' دہائی کا سامنا ہے۔روس کے صدر ولادیمیر  پیوٹن اپنے ایک خطاب میں، یوکرین  پر روسی حملے کا جواز پیش  کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ امریکہ اور اس کے اتحادی مغربی اشرافیہ کے عالمی تسلط کے ناگزیر زوال کو بچانے کے لئے لڑ رہے ہیں، اس لیے ''دوسری عالمی جنگ  کے بعد دنیا کو سب سے خطرناک عشرے کا سامنا ہے۔روسی صدر نے امریکہ پر یوکرین کے تنازعے کو بھڑکانے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ مغرب ایسا خطرناک، خونی اور گندا جیو پولیٹیکل گیم کھیل رہا ہے، جو پوری دنیا میں افراتفری کا بیج بونے کا باعث بن رہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ بالآخر دنیا کے مستقبل کے بارے میں مغرب کو روس اور دیگر بڑی طاقتوں سے ہی بات کرنی پڑے گی۔ روسی صدر پوٹن  بین الاقوامی پالیسی ماہرین پر مشتمل سالانہ  'والڈائی ڈسکشن کلب' کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اب عالمی امور پر مغرب کے غیر منقسم تسلط کا تاریخی دور ختم ہونے والا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ روس نے محاذ آرائی کے موجودہ مرحلے کے باوجود بھی مغرب کو روس کا دشمن نہیں سمجھا ہے۔ مغرب اور نیٹو کے سرکردہ ممالک کے لیے ماسکو کا ایک پیغام ہے: آئیے دشمن بننا چھوڑ دیں، آئیے ساتھ رہیں۔صدر پیوٹن نے ساتھ یہ بھی کہا کہ ماسکو یوکرین میں تنازعے کے خاتمے کے لئے بات چیت کے لئے تیار ہے، تاہم ان کا کہنا تھا کہ کییف مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے لئے تیار نہیں ہے۔انہوں نے کہا، یہ سوال ہمارے بارے میں نہیں ہے، ہم تو مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ لیکن کییف میں رہنماؤں نے روس کے ساتھ مذاکرات جاری نہ رکھنے کا فیصلہ کیا۔ اگر واشنگٹن کییف سے متعلق اپنا موقف تبدیل کرے اور مسئلے کو پرامن طریقے سے حل کرنے کا اشارہ دے، تو یہ مسئلہ حل کرنا بہت آسان ہے۔روسی صدر سے جب یوکرین تنازعے میں ممکنہ جوہری ہتھیار استعمال کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا خطرہ اس وقت تک موجود رہے گا جب تک جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ماسکو کا یوکرین میں جوہری ہتھیار استعمال کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ہم اس کی کوئی ضرورت نہیں دیکھتے۔ اس کا کوئی سیاسی یا عسکری فائدہ بھی نہیں ہے۔ادھر امریکہ نے روسی صدر کے بیان پر کوئی خاص رد عمل ظاہر نہیں کیا۔ وائٹ ہاؤس کا کہنا تھا کہ پیوٹن کے یہ ریمارکس کوئی نئی بات نہیں ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یوکرین سمیت ان کے دیگر سٹریٹیجک اہداف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ویسے دیکھا جائے تو روس کے صدر نے جو باتیں کی ہیں وہ ایک ٹھوس حقیقت کا اظہار ہے اور امریکہ نے ہی یوکرین کو جنگ میں دھکیل دیا ہے اور وہی اس جنگ کا خاتمہ بھی کر سکتا ہے۔