چین کے دور اندیش قائدین 

بیجنگ کی ایک عمارت  کے ایک وسیع حال میں ماؤزے تنگ کی حنوط شدہ لاش ایک عرصے سے پڑی ہوئی ہے ہزاروں سیاح جو چین کی سیر کو جاتے ہیں وہ اگر دیوار چین دیکھنے جاتے ہیں تو  یہاں کادورہ بھی ضرور کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ماؤزے تنگ دنیا بھر کے مفلوک الحال غریبوں کے ہیرو تھے کیونکہ انہوں نے ہر اس پالیسی کی مخالفت کی تھی کہ جس کا اطلاق کر کے سرمایہ دار طبقے عوام الناس کا معاشی استحصال کرتے تھے وہ معاشی برابری اور انصاف  کے اصولوں پر کاربند تھے۔ ماؤزے تنگ نے دنیا کے کئی  انقلابیوں کو متاثر کیا کہ جن کی تعداد اگر ہزاروں میں ہے۔ یہ ماؤ زے تنگ کی خوش قسمتی تھی کہ انہیں چواین لائی کی شکل میں ایک ایسا رفیق ملا تھا کہ جنہوں نے بطور وزیر اعظم چین ماؤے زے تنگ کے خیالات کو عملی جامہ پہنانے میں کلیدی کردار ادا کیا یہ جو چین آج ہر شعبہ زندگی میں دنیا پر چھا گیا ہے تو اس کی وجہ وہ مضبوط بنیادیں ہیں کہ جو ماؤزے تنگ اور چو این لائی نے اسے مہیا کیں۔ 

یہ بھی چین کی خوش قسمتی ہے کہ ان دو رہنماؤں کے بعد یکے بعد دیگرے اسے کئی ایسے لیڈر میسرہوئے کہ جنہوں نے ان پالیسیوں پر صدق دل سے اتفاق کیا کہ جو ماؤزے تنگ اور چو این لائی نے وضع کی تھیں۔ وہ صحیح معنوں میں غریب پرور تھے اور یہی وجہ ہے کہ وہ ماضی میں بھی اور آج بھی دنیا بھر کے تمام غریب لوگوں کی آنکھ کا تارا ہیں۔اب کچھ تذکرہ ہو جائے جزیرہ نما جاپان کا جہاں شمالی کوریا کی جانب سے دوسرے روز بھی میزائل داغنے کا سلسلہ جاری رہا، جس میں سے ایک ممکنہ طور پر بین البراعظمی بیلسٹک میزائل بھی شامل ہے۔ اس کی وجہ سے جاپان میں عوام کو محفوظ مقامات پر پناہ لینے کا حکم بھی دینا پڑا۔جنوبی کوریا اور جاپان کے حکام کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا کی جانب سے اندھا دھند میزائل فائر کرنے کا سلسلہ جاری ہے اور جمعرات کے روز بھی اس نے متعدد بیلسٹک میزائل فائر کیے۔ بدھ کے روز بھی شمالی کوریا نے متعدد میزائل فائر کیے تھے، جس میں سے ایک میزائل جنوبی کوریا کی سرحد کے پاس گرا تھا۔

 اس کی وجہ سے لوگ محفوظ مقامات پر پناہ لینے پر مجبور ہوگئے تھے۔ جمعرات کے روز بھی جنوبی کوریا نے جو متعدد میزائل فائر کیے اس میں سے ممکنہ طور پر ایک بین البراعظمی بیلسٹک میزائل تھا، جس کی وجہ سے جاپان کو ملک کے بعض مرکزی اور شمالی علاقوں میں انخلا کے لئے الرٹ جاری کرنا پڑا۔جاپان کے وزیر اعظم فومیو کشیدا نے کہا ہے کہ شمالی کوریا کی جانب سے  بار بار میزائلوں کا داغنا، غم و غصے کی وجہ ہے اور اسے قطعی طور پر معاف نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ان راکٹوں میں سے ایک بین البراعظمی بیلسٹک میزائل ہو سکتا ہے۔حالیہ مہینوں میں پیونگ یانگ نے اس طرح کے میزائل تجربات میں تیزی دکھائی ہے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ ایسا وہ امریکہ اور جنوبی کوریا کی جانب سے خطے میں مشترکہ فوجی مشقیں دوبارہ شروع کرنے کے رد عمل میں کر رہا ہے۔

 وہ ان مشترکہ مشقوں کو حملہ کرنے کی مشق کہتا ہے۔جاپان میں ملک کے ہنگامی نشریاتی نظام جے الرٹ نے ابتدائی طور پر یہ اطلاع دی تھی کہ میزائل سمندر میں گرنے سے پہلے ملک کے اوپر سے پرواز کی۔ تاہم بعد میں ٹوکیو نے اس کو غلط خبر قرار دیا۔اس کے بعد جاپانی وزیر دفاع یاسوکازو ہمادا نے کہا کہ ابتدائی طور پر ہمیں ایک ایسے لانچ کا پتہ چلا، جس نے جاپان کے اوپر سے پرواز کرنے کی صلاحیت کو ظاہر کیا اور اسی وجہ سے جے الرٹ متحرک ہو گیا۔ لیکن جب ہم نے پرواز کی جانچ کی، تو اس کے بعد ہم نے اس بات کی تصدیق کی کہ یہ جاپان کے اوپر سے نہیں گزری تھی۔

جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول نے، بدھ کے روز شمالی کوریا کی جانب سے 23 میزائلوں کے تجربات کو، موثر طور پر ایک علاقائی حملہ قرار دیا تھا۔ اس سے پہلے شمالی کوریا نے ایک ہی دن کے اندر اتنی بڑی تعداد میں میزائل کبھی فائر نہیں کیے تھے۔بدھ کے تجربات میں سات مختصر فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل اور چھ زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل شامل تھے۔ جنوبی کوریا نے بھی اس کے جواب میں زمین سے فضا میں مار کرنے والے اپنے تین میزائل فائر کیے تھے۔شمالی کوریا کے میزائلوں میں سے ایک نے دونوں ممالک کے درمیان کی سمندری سرحد کو عبور کیا تھا، جو جنوبی کوریا کے مشرقی ساحل سے صرف 57 کلومیٹر کے فاصلے پر گرا تھا۔ اس واقعے سے اولیونگ جزیرے پر فضائی حملے سے متعلق سائرن بج اٹھے اور لوگوں کو پناہ لینے پر مجبور ہونا پڑا۔