عام آدمی کی سواری

اگر تو وزیر اعظم پاکستان کے حالیہ دورہ چین کے دوران ان کی چینی حکومت سے بات چیت کے نتیجے میں پشاور تا کراچی کے ریل کے منصوبے اور کراچی سرکلر ریلوے کو سی پیک کا حصہ بنا دیاجاتا ہے تو یہ بہت بڑی بات ہو گی اس سے نہ صرف یہ کہ  پشاور تا کراچی تک سفر کرنے والے غریب عوام کا بہت بڑا بھلا ہو گا کراچی کے غریب عوام کو اندرون شہر سفر کرنے کی بہت بڑی سہولت بھی مل جائے گی یہ دونوں منصوبے صحیح معنوں میں عوام دوست منصوبے ہیں قیام پاکستان کے بعد ایک لمبے عرصے تک فرنگیوں سے ورثے میں کراچی کو جو سرکلر ریلوے اور ٹرام کا نظام ملا تھا ان سے کراچی کے عام آدمی کو سفر کی بہت سہولت تھی پھر ایک ایسا دور آیا کہ اس ملک میں کچھ لوگوں نے قصداً ریلوے کے نظام کو پنپنے نہ دیا تاکہ روڈ ٹرانسپورٹ کے مالکان کو مسافروں کا معاشی استحصال کرنے کی کھلی چھٹی مل سکے ریلوے عام آدمی کی سواری ہے اور اسے مضبوط بنیادوں پر استوار کرنا اس ملک کے عام آدمی کے مفاد میں ہے۔ریلوے سے غریب طبقہ ہی مستفید ہوتا ہے جس کا اندازہ حالیہ مون سون کی بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے ریلوے نظام کے متاثر ہونے سے لگایا جا سکتا ہے‘ٹرینوں کی آمد و رفت بند ہونے سے غریب مسافروں کو کراچی سے پشاور اور دوسرے شہروں تک رسائی میں بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا‘ بالخصوص بسوں میں سفر کے بھاری اخراجات ان کے بس میں نہ تھے۔ عربی زبان میں ایک کہاوت ہے کہ رعایا یعنی عوام اپنے حکمرانوں کا چلن اپنانے کی کوشش کرتے ہیں اگر وہ اچھی خاصیتوں کے مالک ہوں گے سادگی قناعت اور دیانتداری ان کا شیوہ ہوگا تو لا محالہ عام پبلک بھی ان صفات پر عمل پیرا ہونے کی سعی کرے گی‘ بالفاظ دیگر لیڈر قوم کے رول ماڈل کا کردار بھی ادا کرتے ہیں اگر آپ وطن عزیز کے ایوان اقتدار پر ایک طائرانہ نظر بھی ڈالیں تو آپ کو زندگی کے ہر شعبے میں اچھی صفات کے کئی لیڈر دکھائی دیں گے جو اس قوم کیلئے باعث افتخار تھے اور انہوں نے اپنی محنت اور صلاحیتوں سے بڑا نام کمایا پاکستان ائر فورس کو ہی دیکھ لیجئے‘ ائر مارشل اصغر خان اور ائر مارشل نور خان کی شکل میں ہماری فضائی ائر لائن میں دو ایسے ائر چیف پیدا ہوئے جن کی قیادت کی وجہ سے دنیا بھر میں عموماً اور اسلامی دنیا میں خصوصاً پاکستان کی ائر فورس نے اپنے لئے ایک منفرد مقام بنایا اور اس کا شمار دنیا کی چند بہترین ائر فورسز میں ہونے لگا وہ دونوں میرٹ اور صرف میرٹ پر یقین رکھتے تھے یہ ان کی بے مثال قیادت ہی تھی کہ ہم سے عسکری سازو سامان میں چھ گنا زیادہ ائر فورس رکھنے والا بھارت65 ء کی جنگ میں پی اے ایف کو زیر نہ کر سکا‘جس نے اسے ناکوں چنے چبوائے جس کا اعتراف آج بھی کیا جاتا ہے‘ اب ذکر ہوجائے‘تاریخ کے ایک ورک کا‘ایک لمبے عرصے تک مہا راجہ رنجیت سنگھ پنجاب کا حکمران رہا ہے اور اس کے دور حکمرانی میں وہ علاقہ جو آج کل خیبر پختونخوا کہلاتا ہے پنجاب کا حصہ تھا ہری سنگھ نلوہ اس کا ایک جری جرنیل تھا‘ہری سنگھ نلوہ پشاور کا گورنر بھی تھا‘جب وہ ایک جنگ کے دوران مارا گیا تو رنجیت سنگھ اس کے جانشین کی تلاش میں تھا اس کی نظر انتخاب ایک اٹلی نزاد فوجی۔پر پڑی جو اس کی فوج میں بطور mercenary یعنی کرائے کے فوجی کی حیثیت سے کام کر رہا تھا۔ان دنوں پشاور کا امن عامہ بھی کافی خراب ہو چکا تھا‘ رنجیت سنگھ کو پشاور کا امن عامہ بحال کرنے کی بھی ضرورت تھی اور اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی فوج کو بھی جدید خطوط پر استوار کرنا چاہتا تھا ان دنوں پشاور کا امن عامہ بھی کافی خراب ہو گیا تھا رنجیت سنگھ نے ان دنوں کاموں کے لئے اس نے Avitabile  کو چنا جسے عرف عام میں ابو تبیلہ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا تھا وہ 1837 ء اور 1843 ء کے درمیان پشاور کا گورنر رہا‘گور گھٹڑی پشاور کے اندر اس کی رہائش بھی تھی اور دفتر بھی بالفاظ دیگر گورگھٹڑی اس وقت گورنر ہاؤس تھا تاریخ کی کتابوں میں درج ہے کہ وہ جرائم پیشہ افراد کو بجلی کے کھمبوں کے ساتھ الٹا لٹکا دیتا تھا اور ان کو مسجد مہابت خان کے میناروں سے بھی نیچے زمین پر گرا دیا کرتا تھا اس قسم کی ہیبت ناک سزائیں دے کر اس نے جرائم پیشہ لوگوں پر اپنا رعب اور دبدبہ قائم کر رکھا تھا اس کے دور حکومت میں پشاور میں جرائم پیشہ لوگوں کا قلع قمع ہو گیا تھا اور جرائم نہ ہونے کے برابر تھے ان دنوں مشرق وسطیٰ بشمول برصغیر کے اکثر حکمران یورپین افواج کے تربیت یافتہ فوجیوں کی خدمات مستعار لیا کرتے تھے جو بطور کرائے کے فوجی کام کرنے کے لئے دستیاب ہوا کرتے تھے۔