امریکہ نے اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے پوری دنیا میں جا بجا کشیدگی کا ماحول بنا دیا ہے اور اس وقت پوری دنیا ایک طرح سے انتشار کا شکار ہے۔ایک طرف ا س نے یوکرین کو روس سے لڑوا کر یورپ کو ایک بار پھر اپنے زیر اثر لانے کیلئے چال چلی ہے کیونکہ دیکھا جائے تو یہ یوکرین روس تنازعہ ہی ہے جس نے ایک طرح سے مردہ نیٹو میں جان ڈال دی ہے اور امریکہ کو ایک بار پھر موقع مل رہا ہے کہ وہ یورپی ممالک کو اپنے مفادات کیلئے استعمال کر سکے۔جہاں تک یوکرین کا معاملہ ے تو یہاں پر اب روس نے مقبوضہ علاقوں پراپنی گرفت مضبوط کی ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ امریکی صدر بائڈن نے یوکرین کی حکومت کو یہ کہہ دیا ہے کہ وہ روسی صدر پیوٹن سے مذاکرات کرے۔ امریکی پالیسی میں ایک بہت بڑا یو ٹرن ہے کیونکہ کل تک تو وہ روس کے خلاف یوکر ین کی ہلہ شیری کر رہا تھا یہ بھی
عین ممکن ہے کہ بائیڈن کے اس اعلان کی وجہ یہ ہو کہ یوکرین کی جنگ سے یورپ کے علاہ کئی ممالک کو تیل اور خوراک کی بڑھتی قیمتوں کا سامنا ہے حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ ایک طرف تو امریکی حکومت یوکرین کو اس قسم کا مشورہ دیتی ہے تو دوسری طرف یوکرین کی فوجی امداد کیلے رقم بھی مختص کرتی ہے۔اس طرح یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ امریکہ نے یوکرین کو جس جنگ میں دھکیلا ہے وہ سراسر یوکرین کیلئے گھاٹے کا سودا ہے۔ایک طرف تو اسے اپنے وسیع علاقے سے ہاتھ دھونا پڑے تو دوسری طرف وہ امریکہ کا دست نگر بن کر رہنے پر مجبو رہوگا۔ وزیر اعظم کے اس بیان سے شاید ہی کوئی اختلاف کرے کہ موسمیاتی تبدیلی کو نظر انداز کرنا مجرمانہ غفلت ہو گی۔ اس سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ مالی مدد کے بغیر ترقی پذیر ممالک موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے دو چار رہیں گے۔امریکی صدر بائیڈن کے بارے میں مشہور ہے کہ ان کے منہ سے اکثر ایسے الفاظ نکل جاتے ہیں جو بعد میں ان کے اور امریکی حکومت دونوں کئے واسطے باعث ندامت بن جاتے ہیں اور پھر امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کو صفائیاں پیش کرنے کی نوبت آتی ہے قارئین کو یادہو گا کہ کچھ عرصہ قبل انہوں نے پاکستان کے اٹیمی اثاثوں کے بارے میں ایک غیر ذمہ دارانہ بیان دیا تھا جس پر کافی لے دے
ہوئی تھی اب اگلے روز انہوں نے افغانستان کو ایک بدقسمت ملک کا خطاب دیا ہے جس پر افغانستان میں طالبان کی حکومت نے برا منایا ہے۔ عوامی حلقوں نے حکومت کے اس فیصلے کو سراہا ہے کہ جس کے تحت قیمتی گاڑیوں کے فیول پر پچاس روپے لیٹر لیوی کا اطلاق 16 نومبر سے ہو گا۔ اس فیصلے سے کروڑوں روپے مالیت کی مرسڈیز بی ایم ڈبلیو او ڈی وغیرہ کے ایندھن جو کہ بڑے دولت مند استعمال کرتے ہیں ان پر پٹرولیم لیوی پچاس روپے لیٹر تک ہو جائے گی البتہ چھوٹی گاڑیوں پر یہ فیصلہ لاگو نہیں ہو گا۔اس وقت ضرورت ایسے ہی فیصلوں کی ہے جس سے معاشی مشکلات کے خاتمے میں مدد مل سکے اور اس کا بہترین طریقہ یہی ہو سکتا ہے کہ جو جتنا زیادہ کماتے ہیں اس قدر ان پر بوجھ ڈالا جائے اور عام شہری کو زندگی کی بنیادی سہولیات کی فراہمی میں آسانی مہیا کی جائے۔