ابلاغ عامہ کا نیا روپ 

  انفارمیشن ٹیکنالوجی نے کیا آنا تھا کہ ابلاغ عامہ کا پورا نظام درہم برہم ہو کر رہ گیا ہے۔ آج کل ہر لمحے قارئین اور ناظرین کو نت نئی خبریں پڑھنے اور دیکھنے کو ٹیلی ویژن اور موبائل سیٹوں پر سوشل میڈیا کے ذریعے مل رہی ہیں۔کسی زمانے میں سابقہ سوویت یونین سے دو معروف روزنامے چھپتے تھے ایک کا نام تھا پراودا اور دوسرے کا ازوزستیا، پراودا کا روسی زبان میں مطلب ہے سچ اور ازوزستیا کے معنی ہیں خبر، پراودا کمیونسٹ پارٹی کا ترجمان تھا تو ازوزستیا روس کی حکومت کا۔ ان دنوں مغربی دنیا میں ایک لطیفہ مشہورہو گیا تھا کہ اگر پراودا پڑھو تو اس میں ازوزستیا نہیں ملتا اور اگر ازوزستیا پڑھو تو اس میں پراودا نہیں ہوتا۔ بالفاظ دیگر اگر پراودا پڑھو تو اس میں کوئی خبر نہیں ملتی اور اگر ازوزستیا پڑھو تو اس میں کوئی سچ دکھائی نہیں دیتا۔یہ وہ وقت تھا جب سوشل میڈیا نہیں تھا اور
 کوئی بھی خبر لگی لپٹی کے ساتھ ہی سامنے آتی تھی اب تو خیر انفارمیشن ٹیکنالوجی کے انقلاب سے حالات یکسر بدل چکے ہیں۔کسی واقعے یا خبر کو چھپانا ناممکن حد تک مشکل ہوگیا ہے تاہم ساتھ ایک اور مسئلہ بھی درپیش ہے کہ سوشل میڈیا پر غیر مصدقہ خبروں اور تبصروں کی بھرمار ہے جس کو دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا ہے کہ کونسی بات سچ ہے اور کونسی بات جھوٹی، اس لئے ضروری ہے کہ سوشل میڈیا پر معلومات کو منظم اور مصدقہ انداز میں سامنے لانے کا کوئی انتظام ہوجائے۔اب آتے ہیں چند دیگر اہم امور کی جانب، امریکہ کا تازہ ترین فرمان یہ ہے کہ پاکستان سمیت کوئی بھی ملک روس سے تیل خرید سکتا ہے۔ بادی النظر میں تو یہ امریکہ کا بہت بڑایو ٹرن ہے پر اس پر فورا ًیقین کرنے کے بجائے اس کے ہر پہلو پر سنجیدگی سے غور کرنا ضروری ہے کیونکہ امریکہ کہتا کچھ ہے اور کرتا کچھ۔اس کے ہر فیصلے کے پیچھے ایک راز ہوتا ہے کیا کل تک وہ یوکرائن کی ہلہ شیری نہیں کر رہا تھا اور آج اسے وہ یہ مشورہ دے رہا ہے کہ وہ روس سے جنگ کے بجاے مذاکرات کرے۔اس کا تو واضح مطلب یہ ہے کہ امریکہ نے یوکرین کے ساتھ ہاتھ کر دیا ہے اور پہلے اسے روس سے لڑایا اور روس پر
 تجارتی پابندیاں لگا کر یوکرین کو باور کرایا کہ امریکہ اس کے ساتھ کھڑا ہے۔ تاہم اب لگتا ہے کہ اسے روس کے مقابلے پر تنہا چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس میں عبرت ہے ان تمام ممالک کیلئے جو امریکہ کی پالیسیوں کی اندھا دھند پیروی کرتے ہیں اور اپنے ساتھ ایک طرح سے دھوکہ کرتے ہیں۔ کیونکہ امریکہ کسی کادوست نہیں، وہ محض اپنے مفادات کوتحفظ کرتا ہے۔ چاہے اس کیلئے اسے کتنے معاہدے توڑنے پڑیں۔اس طرح ایک اور حقیقت بھی کھل کر سامنے آنے لگی ہے کہ روس اور چین کی دوستی نے امریکہ کو مشکل میں ڈال دیا ہے اور جب تک یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہیں امریکہ کو لینے کے دینے پڑیں گے۔ اس لئے تو اس کی کوشش ہے کہ کسی طرح روس اورچین میں غلط فہمیاں پیدا کرے۔