ان کتابوں کا پڑھنا کیوں ضروری ہے؟

ایڈورڈ گبن کا نام تو آپ نے ضرور سناہوگا اور یقینا آپ نے ان کی وہ تصنیف بھی ضرور پڑھی ہو گی کہ جس میں انہوں نے سلطنت روم کے عروج و زوال کی داستان رقم کی ہے اس کتاب کا نام ہے The decline and fall of Roman Empire   اس کو لکھنے میں ان کو22 برس کا عرصہ لگا تھا اس کتاب کے بارے میں سر ونسٹن چرچل نے لکھا تھا کہ میں نے اچھی انگریزی لکھنے کاہنر اس کتاب کو پڑھنے کے بعد سیکھا اور جی ہاں یہ وہی چرچل ہیں کہ جن کو ان کی ایک کتاب پر لٹریچر کے شعبے میں بہترین کتاب لکھنے پر نوبل پرائز دیا گیاہے‘ واقعی گبن کا طرز بیان انگریزی زبان کے طالب علموں کو کافی متاثر کرتا ہے‘ہماری دانست میں سلطنت روم کے عروج و زوال کے بارے میں گبن کی مندرجہ بالا کتاب سے بہتر کوئی کتاب اب تک نہیں لکھی گئی ہے یہاں پرہم ایک اور تاریخ دان کا ذکر اگر کر دیں تو بے جا نہ ہو گا اس کا نام ہے ول ڈیورانٹ‘ان کی کتاب Fallen leaves  ان کے تجربات کا نچوڑ ہے گو کہ اس تاریخ دان کی وجہ شہرت ان کی شہرہ آفاق کتاب The story of civilisation ہے جو 22 جلدوں پر مشتمل ہے پر زیر تبصرہ کتاب میں ایک کیپسول کی شکل میں انہوں نے نہایت اختصار کے ساتھ دور حاضر کے اہم معاملات جو کرہ ارض پر بسنے والوں کو درپیش ہوتے رہتے ہیں کا احاطہ کیا ہے ان ابتدائی کلمات کے بعدہم ذکر کرنا چاہیں گے چند اہم نوعیت کے قومی اور عالمی امور کا۔خدا خیر کرے اب کی دفعہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے سخت جاڑے کااندیشہ ہے اور اس پر طرہ یہ کہ سیکرٹری پٹرولیم نے اگلے روز یہ  عندیہ دے دیا ہے کہ اس جاڑے میں گیس کسی کو بھی نہیں ملے گی‘ ان کے مطابق ہر سال ملک میں گیس کی دس فیصد کمی ہو رہی ہے اور آئندہ دس برس کے اندر ملک میں قدرتی گیس کے ذخائر ختم ہو جائیں گے‘یہ صورت حال اس ملک گے ارباب بست و کشادکے لئے واقعی ایک لمحہ فکریہ فراہم کرتی ہے اور اس سے نبرد آزما ہونے کے لئے ابھی سے لانگ ٹرم حکمت عملی بنانی ہو گی‘ہمارا ہمیشہ سے یہ المیہ رہا ہے کہ ہم بغیر لانگ ٹرم پلاننگ کے منصوبوں کا اجرا ء کر دیتے ہیں جو بعد میں پھر ہمارے ہی گلے پڑ جاتے ہیں‘سوہی گیس کی بلوچستان میں دریافت کے بعدہم نے اس کے ذخائر کا بغیر سوچے سمجھے آنکھیں بند کئے کثرت سے استعمال شروع کیا اور اس کی پیداوار اور استعمال کے درمیان توازن نہ رکھا اور اس کا نتیجہ ہم آج دیکھ رہے ہیں۔