چرچل پکٹ ماضی کی ایک  یادگار 

اگر آپ دیر چترال یا سوات جا رہے ہوں  تو راستے میں چکدرہ کے مقام پر آپ کو ایک پہاڑی کے اوپر ایک قلعہ نما پکٹ دکھائی دے گی جو چرچل  پکٹ کے نام سے مشہور ہے اس پکٹ کے ساتھ ایک تاریخی واقعہ  وا بستہ ھے یہ 1895 کی بات ہے۔ جب عمرا خان آف  جندول نے  فرنگیوں کے خلاف مالاکنڈ میں علم بغاوت  بلند کیا تھا اور فرنگیوں نے اس کے ساتھ جھڑپوں میں کافی نقصان اٹھایا تھا۔چرچل جنہوں دوسری جنگ عظیم  میں بطور وزیر اعظم برطانیہ بڑا نام کمایا تھا نے  اس پکٹ میں 1897  کے دوران چند روز گزارے تھے جب اس علاقے میں کشیدگی تھی  اور اس پکٹ پر مقامی قبائل کا قبضہ تھا  اور اسے مقامی قبائل سے آزاد کرانے میں چرچل نے بھی کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ چرچل فرنگی فوج کے ساتھ بطور  جنگی نامہ نگاراس علاقے میں آیا تھا اور یہاں سے جنگی مہمات پر لندن کے معروف روزنامے ڈیلی ٹیلی گراف کو نیوز رپورٹس بھجوایا کرتا اسے اخبار والے ہر کالم کے عوض پانچ برٹش پاؤنڈز بطور مشاہرہ ادا کرتے جو ان کی والدہ لندن میں ان کے بنک اکاؤنٹ میں جمع کرتیں جب چرچل واپس لندن پہنچے تو ان کے اکاؤنٹ میں اچھی خاصی رقم جمع ہو چکی تھی جو پھر انہوں نے ملاکنڈ فیلڈ فورس کے نام سے ایک کتاب چھاپنے پر خرچ کی جو ان کے ان اخباری کالموں پر مشتمل تھی  جو ڈیلی ٹیلی گراف میں چھپے تھے۔
اس کتاب کی اشاعت سے چرچل کی انگلستان کے سیاسی حلقوں میں اس وقت  بہت بلے بلے ہوئی تھی۔1961میں جب ملکہ برطانیہ پاکستان کے دورے پرآئیں تو ان کو چرچل پکٹ پر لے جایا گیا جہاں سے انہوں نے ہاٹ لائن پر لندن فون کر کے چرچل کو بتایا کہ وہ اس پکٹ سے بول رہی ہیں کہ جہاں پر 60 برس قبل انہوں نے چند دن گزارے تھے۔ ان دنوں چرچل لندن میں ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے تھے۔  اب کچھ تذکرہ دیگر اہم امور کا ہوجائے۔عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے حالیہ کانفرنس میں بھی بڑے بڑے وعدے کئے گئے تاہم ماضی میں کئے گئے وعدوں پر بھی ابھی تک عمل نہیں ہوا۔عالمی درجہ حرارت کو ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ پر لانے کے وعدوں کے باجود عالمی حدت میں دگنی رفتار سے اضافہ ہو رہا ہے۔ کوئلے کے استعمال اور میتھین کے اخراج میں کمی لانے کے وعدوں پر بھی عمل نہ ہو سکا۔گزشتہ سال برطانیہ میں منعقدہ عالمی ماحولیاتی سربراہی اجلاس میں تقریبا 200 ممالک کے رہنماں نے اقوام متحدہ کو یہ بتانے کا وعدہ کیا کہ وہ آلودگی میں تیزی سے اور جلد کمی کیسے لائیں گے۔ لیکن ایک سال بعدجب یہ رہنما مصر میں جاری 27COP سربراہی اجلاس کیلئے مل رہے تھے‘ تو اب تک صرف 26 ممالک نے ہی اپنا اقوام متحدہ سے کیا گیا عہد پورا کیا ہے۔ٹوٹے ہوئے وعدے ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق کانفرنسوں کا ایک  باقاعدہ حصہ تھے‘2009 میں امیر ممالک نے ماحولیاتی آلودگی کم کرنے اور عالمی حدت میں کمی لانے کے لئے 2020  تک غریب ملکوں کو سالانہ 100 بلین ڈالر فراہم کرنے کا وعدہ کیاتھا۔یہ فنڈ 2020 میں تقریبا 83 بلین ڈالر تک پہنچا، اس میں زیادہ تر زیاد فنڈنگ قرضوں کی شکل میں تھی جو واپس کرنی ہوگی۔ عالمی رہنماؤں نے کہا کہ وہ اس صدی میں گلوبل وارمنگ کو 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود کرنے کی کوشش کریں گے۔ تاہم ان ممالک کی موجودہ پالیسیاں کرہ ارض کو تقریبا دوگنارفتار سے گرم کر دیں گی۔
تمام حکومتوں نے کوئلے کو 'فیز ڈان کرنے پر اتفاق کیا، جو کہ سب سے مضر ایندھن  ہے۔ 46 ممالک کے ایک گروپ نے کہا کہ وہ کوئلے کے اپنے بے لگام پلانٹس کو ختم کر دیں گے -  ان ممالک میں  پولینڈ اور ویتنام جیسے کوئلے کے انتہائی ضرورت مند ملک بھی شامل ہیں، جن کا کہنا تھا کہ وہ ایسے پاور پلانٹس جو کاربن پکڑنے اور ذخیرہ کرنے کے لئے ٹیکنالوجی سے لیس نہیں انہیں بند کر دیں گے ۔ مزید 39 ممالک نے کہا کہ وہ 2022 کے آخر تک دوسرے ممالک میں فوسل فیول کے منصوبوں کی مالی امداد بند کر دیں گے۔ان اعلانات کے باوجود کوئلے کا استعمال مسلسل بڑھ رہا ہے اور کچھ ممالک اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ 
نیوز ویب سائٹ یوریکٹو کے مطابق پولینڈ نے حال ہی میں اعلان کیا کہ وہ اپنی کوئلے کی کانوں کو بند کرنے کے منصوبوں کی رفتار سست کر دے گا۔ روس کے یوکرین پر حملے کے بعد یورپ بھر کے ممالک نے کوئلے کے پلانٹ دوبارہ چلانا شروع کر دئیے ہیں۔ایک سو سے زائد ملکوں نیاس  دہائی کے اختتام تک میتھین کی آلودگی کو 2020 کی سطح کے 30 فیصد تک کم کرنے کے عہد پر دستخط کیے ہیں۔ میتھین ایک ایسی زہریلی گیس ہے جو یہ ماحول میں زیادہ دیر تک نہیں رہتی لیکن  20 سال کے عرصے میں اس نے کرہ ارض کو کاربن ڈائی آکسائیڈ سے کم از کم 80 گنا زیادہ گرم کیا ہے۔