چینی قیادت کی دانشمندانہ پالیسی 

یہ خبر تشویشناک ہے کہ پاکستان بھر میں 3کروڑ 30 لاکھ سے زائد افراد شوگر یعنی کہ ذیابیطیس کا شکار ہیں پاکستان دنیا میں شوگر کے مریضوں کا تیسرا بڑا ملک ہے گزشتہ برس شوگر سے وطن عزیز میں  4لاکھ افراد ہلاک ہوئے یہ بات بھی تمام والدین کی توجہ طلب ہے کہ وطن عزیز میں بچے  میٹھے شربت کے استعمال کی طرف تیزی سے راغب ہو رہے ہیں جو ان کو شوگر جیسے موذی مرض میں مبتلا کر رہا ہے۔  بچیاں اوربچے چوبیس گھنٹے موبائل فون کے ساتھ بھی  چمٹے ہوئے ہیں۔ جسمانی ورزش کی طرف کسی کا رحجان نہیں جس کی وجہ سے ذیابیطس کا پھیلا ؤبڑی تیزی سے ہو رہا ہے۔اب کچھ اور واقعات کا تذکرہ ہوجائے۔  ڈیرہ اسماعیل خان میں اگلے روز دہشت گردوں کے خلاف کاروائی میں جو دہشت گرد مارے گئے ہیں اسے زمینی حقائق کی روشنی میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ بارڈر منیجمنٹ میں کہیں نہ کہیں سقم موجود ہے کہ جس کا فائدہ اٹھا کر اس ملک کے دشمن وطن عزیز کے اندر دہشت گردی کی کاروائیوں میں حصہ لے رہے ہیں اور سابقہ فاٹا کے رستے سے  یہ افغانستان سے ہوکر آسانی ڈیرہ اسماعیل خان کے اندر داخل ہو سکتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے سیکورٹی اداروں نے بڑی قربانیاں دے کر جو امن بحال کیا ہے وہ امن کے دشمنوں سے برداشت نہیں ہورہا اور پاکستان نے چین کے ساتھ مل کر جو سی پیک جیسے منصوبے پروان چڑھائے ہیں اس کو نقصان پہنچانے کیلئے پاکستان اور چین کی دوستی سے جلنے والی طاقتیں سرگرم ہیں۔ امریکہ افغانستان سے نکل تو گیا ہے تاہم اس نے اپنے مفادات کیلئے یہاں پر اپنا کھیل ترک نہیں کیا ہے۔ سی پیک منصوبوں کو  نقصان پہنچانے کے بھارتی عزائم بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔گواد پورٹ کو جدید ترین سیکورٹی نظام دینے کا فیصلہ صائب ہے اور وقت کی ضرورت بھی۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ پورے  ملک میں سی پیک منصوبوں کو اس جدید دفاعی نظام سے منسلک کرنا ضروری ہے۔چینی صدر نے بڑی دانشمندانہ بات کی ہے کہ دنیا خوراک و توانائی مسائل کو سیاست زدہ کرنے کی مخالفت کرے انہوں نے بجا فرمایاہے کہ خوراک و توانائی کا تحفظ عالمی ترقی کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ موجودہ بحران کی بنیادی وجہ پیداوار یا طلب نہیں بلکہ supply chain اور عالمی تعاون میں خلل ہے اس سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تمام ممالک اقوام متحدہ اور کثیر الجہتی عالمی تنظیموں کے تعاون سے مارکیٹ کی نگرانی اور ضابطوں میں تعاون کریں اجناس میں شراکت داری قائم کریں ایک کھلی مستحکم اور پائیدار اجناس منڈی بنائی جائے اور سپلائی چینز میں رکاوٹوں کو دور کیا جائے اور ماکیٹ قیمتیں مستحکم کرنے کیلے مل کر کام کیا جائے، اس میں کوئی شک نہیں کہ اس قسم کی دانشمندانہ باتوں کی صرف چینی قیادت سے ہی توقع کی جاسکتی ہے۔اور اس وقت دیکھا جائے تو ایک طرف اگر امریکہ کے مفادات مختلف خطوں میں جنگوں سے وابستہ ہیں تو چین کے مفادات امن سے جڑے ہوئے ہیں کیونکہ چین نے دنیا بھر میں ممالک کے ساتھ تجارت کو فروغ دینے کی پالیسی اپنائی ہے اوراس مقصد کیلئے اس نے بلیٹ اینڈ روٹ اینی شیئے ٹیو کے نام سے جو منصوبہ  شروع  کیا ہے  وہ دنیا بھر میں پھیلا ہوا ہے اور افریقہ سے لے کر یورپ اور ایشیا تک ہر جگہ چین کا یہ منصوبہ تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے اور اس منصوبے کی کامیابی کا دارو مدار امن کے قیام پر ہے۔ اس لئے تو چین امن اور چاہتا ہے جبکہ امریکہ چینی منصوبوں کو ناکام بنانے کیلئے امن و امان کے مسائل پیدا کرنے پر تلا ہو اہے۔