فول پروف بارڈر مینجمنٹ 

افغانستان اور پاکستان کے درمیان سرحد کئی حوالوں سے اہم ہے ایک تو دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا سلسلہ اسی کے ذریعے جاری ہے اور افغانستان جو کوئی بندرگاہ نہیں رکھتا پاکستان کے زمینی راستوں کے ذریعے ہی دنیا سے اشیاء منگوا سکتا ہے اور انہیں بھیج سکتا ہے۔اگر چہ ایران اور وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ بھی اس کی سرحدات ہیں تاہم پاکستان کے ذریعے ٹرانزٹ ان کیلئے مفید ہے اور باقی ممالک کے ذریعے یہ مہنگا سودا ہے۔تاہم بد قسمتی سے افغانستان میں امن ا مان کے حالات کئی دہائیوں سے مخدوش ہیں اور اس کے اثرات پورے خطے پر مرتب ہو رہے ہیں۔خاص طور پر پاکستان کے ساتھ تو افغانستان کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اس لئے تو پاکستان نے شاید سب سے زیادہ افغانستان میں امن کے قیام کیلئے کوششیں کی اور اب بھی اسی تگ و دو میں ہے کہ کسی طرح افغانستان میں امن وخوشحالی آئے تاکہ پاکستان پر اس بوجھ میں کمی ہو جو لاکھوں افغان مہاجرین کی صورت میں پاکستان برداشت کر رہا ہے۔ساتھ ہی یہ بھی ایک لازمی امر ہے کہ افغانستان میں بد امنی سے پاکستان میں بھی اس کے اثرات ظاہرہونا شروع ہوجاتے ہیں۔خیبر پختونخوا کے جنوبی اور شمالی اضلاع میں گزشتہ چند دنوں سے دہشتگردی کے واقعات پیش آنے کے افغانستان کے حالات کے ساتھ گہرا تعلق ہے، جن علاقوں میں یہ واقعات پیش آئے ہیں اگر چہ وہ بندوبستی علاقے ہیں جنہیں عرف عام میں ریونیو ڈسٹرکٹس کہا جاتا ہے پر وہ پاک افغان بارڈر کے قرب و جوار میں واقع ہیں جہاں پر افغانستان سے آنے والے لوگوں کی رسائی بہ آسانی ممکن ہے۔ہم اپنے حالیہ کالموں میں اس بات پر زور دے چکے ہیں کہ پاک افغان بارڈر پر باڈر منیجمنٹ کے نظام کو فول پروف بنانے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ یہ بات خارج از امکان نہیں ہے کہ د ہشت گرد اس بارڈر کے ذریعے وطن عزیز کے اندر داخل ہوتے ہوں اس لئے ضروری ہے کہ اس بارڈر لائن سے آمدورفت کی مانٹیرنگ کو مزید سخت کرنے کی اشد ضرورت ہے اسی طرح اب تک ارباب اقتدار نے افغانستان سے پاکستان آنے جانے والے افغانیوں کی آمدو رفت کیلے کوئی فول پروف میکینیزم مرتب نہیں کیا کہ جس کے تحت اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ صرف وہی افغانی پاکستان میں داخل ہو سکیں کہ جن کے پاس پاکستانی ویزا ہو اور وہ پھر ویزا کی میعاد ختم ہونے کے فوراً بعد واپس اپنے وطن چلے جائیں یہ بات تو پہلے سے طے ہے اور اس میں شک و شبہ کی رتی بھر بھی گنجائش نہیں کہ امریکہ کی اس خطے میں اپنے سیاسی مفادات کے حصول میں حد درجہ دلچسپی ہے کہ جس میں پاکستان افغانستان روس اور چین واقع ہیں اور یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ایک عرصے سے امریکہ اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے مختلف منصوبوں پرعمل پیرا ہے۔اس میں تو کوئی شک نہیں کہ افغانستان میں امن کے قیام سے سی پیک کا دائرہ وسطی ایشیاء تک پھیلانے میں آسانی رہے گی اور چین و پاکستان دونوں یہی چاہتے ہیں کہ وسطی ایشیاء تک سی پیک کا دائرہ وسیع ہو۔ تاہم امریکہ کبھی بھی یہ نہیں چاہتا شایدیہی وجہ ہے کہ افغانستان میں امن کے قیام میں رکاوٹیں سامنے آتی رہتی ہیں اور پاکستان میں بھی جو یہ گنے چنے واقعات سامنے آرہے ہیں اس کے پیچھے بھی یہی عوامل کارفرما ہیں۔اس حوالے سے صرف حکومت پر ہی نہیں بلکہ تمام سیاسی قیادت پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ حالات کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے اس طرف توجہ دیں اور باہمی اختلافات کو پش پشت ڈال دیں۔