ٹانک وانا روڈ پر ایک طائرانہ نظر


ٹانک سے جنوبی وزیرستان کے صدر مقام وانا پہنچنے کیلئے ٹانک وانا روڈ پر تین گھنٹے کا سفر ہے ماضی میں  ٹانک  سے منزی تک یہ روڈ ٹانک کی ضلعی حدود میں واقع تھا منزی سے جنڈولہ تک یہ روڈٹانک  ایف آر کی جغرافیائی حدود میں تھا اور جنڈولہ سے آگے وانا تک یہ جنوبی وزیرستان کا حصہ شمار ہوتا تھا فاٹا کے خیبر پختونخوا کیساتھ انضمام سے پیشتر ٹانک کی ضلعی پولیس ٹانک سے منزی تک اس پر امن عامہ قائم رکھنے کی ذمہ دار تھی منزی سے آگے جنڈولہ تک ٹانک کا ڈپٹی کمشنر بحیثیت پولیٹیکل ایجنٹ ٹانک فرانٹیر ریجن بھٹنی قبیلے کے خاصہ داروں کے ذریعے اس روڈ کا نظم و نسق سنبھالتا تھا اور جنڈولہ سے آگے پھر وانا تک جنوبی وزیرستان کا پولیٹکل ایجنٹ اپنے خاصہ داروں کے توسط سے سڑک کے اس ٹکڑے پر امن عامہ قائم کرنیکا ذمہ دار تھا یہ سسٹم  جو فرنگیوں کے عہد میں قائم کیا گیا تھا پاکستان کو ورثے میں ملا اور جب تک وہ سسٹم لاگو تھا ٹانک وانا روڈ پر بحیثیت مجموعی امن عامہ تسلی بخش رہا ہاں مسعود اور احمد زئی وزیروں کے درمیان کسی تنازعے پر اگر کوئی جھگڑا ہو بھی جاتا  اور اس سے اس روڈ پر جنرل ٹریفک ایک آدھ روز کیلے متاثر ہو جاتی  تو وہ پولیٹکل ایجنٹ جنوبی وزیرستان اور ڈپٹی کمشنر ٹانک علاقے کے عمائدین اور ملکان کے ذریعے فوراً  بحال کر لیتے  جنوبی وزیرستان کے خیبر پختونخوا کے ساتھ انضمام کے بعد تو ہونا  یہ چاہئے تھا کہ ٹانک وانا روڈ پر امن عامہ کی صورت حال بہتر ہو جاتی کیونکہ اب تو امن عامہ کو قائم رکھنے کے تمام اختیارات ایک فرد کے ہاتھ آ گئے ہیں اس لمبی چوڑی تمہید کی ضرورت ہمیں اس اخباری خبر پڑھنے کے بعد محسوس ہوئی جس میں کہا گیا ہے کہ ٹانک وانا روڈ پر اگلے روز دھماکے میں امن کمیٹی کے متعدد ارکان زخمی ہو گئے ماضی میں جب اس علاقے کو collective tribal geographical territorial  responsibility یعنی اجتماعی جغرافیائی قبائلی ذمہ داری کے کانسپٹ کے تحت انتظامی طور پر چلایا جاتا تھا تو جس قبیلے کی زمین میں سے سڑک گزرتی تھی وہ اجتماعی طور پر اپنی جغرافیائی حدود میں اس سڑک پر امن قائم رکھنے کا ذمہ دار ہوا کرتا تھا اور اسے چونکہ اس بات کا احساس تھا کہ اگر اس کی جغرافیائی حدود میں سرکاری سڑک پر کوئی بھی جرم سر زد ہو گیا تو تمام قبیلہ اجتماعی طور پر اس کا ذمہ دار ٹھرایا جائیگا لہٰذا ہرقبیلہ اس بات کا اہتمام کرتا تھا کہ اس کے علاقے میں واقع سرکاری سڑک پر کوئی جرم سر زد نہ ہو اسی حقیقت کے پیش نظر جب فاٹا کا خیبر پختونخوا سے انضمام کیا جا رہا تھا تو بعض عناصر نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ پولیس کا نظام  شاید وہاں زیادہ کامیاب نہ ہو لہٰذا اجتماعی قبائلی ذمہ داری کے نظام کو ختم نہ کیا جائے اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک مشق اور سروے کے ذریعے معلوم کیا جائے کہ فاٹا کے خیبرپختونخوا کیساتھ انضمام کے بعد وہاں کا امن عامہ پہلے سے کچھ بہتر بھی ہواہے یا نہیں یہ سروے ہر سابقہ ٹرائبل ایجنسی میں کیا جائے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔