طاقتور قوتیں یوریشیا کے جغرافیائی سیاسی نقشے کو دوبارہ تیار کر رہی ہیں۔ یوکرین پر روس کا حملہ تازہ ترین واقعہ ہے جس کے یوریشین جغرافیائی سیاست اور اِس کے مستقبل پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ چین کا ڈرامائی عروج‘ بڑھتی ہوئی چین روس شراکت داری‘ چین کو روکنے کی امریکی پالیسی‘ مستقبل قریب میں بھارت کا ممکنہ طاقت کے طور پر اُبھرنا‘ وسطی ایشیا اور خلیج فارس کے علاقے میں چین کی بڑھتی ہوئی اقتصادی و سیاسی رسائی اور مسلسل ہنگامہ آرائی چند ایسے محرکات ہیں جنہیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ مشرق وسطیٰ میں رونما ہونے والی دیگر پیش رفتیں بھی لائق توجہ ہیں جو یوریشین جغرافیائی سیاسی منظر نامے کو یکسر تبدیل کر دیں گی۔ خاص بات یہ ہے کہ پاکستان ان طاقتور قوتوں (عالمی رسہ کشی) کے عتاب سے محفوظ نہیں رہ سکتا لہٰذا اس کے پالیسی سازوں کو‘ ترتیب دیتے ہوئے پاکستان کی سلامتی اور اقتصادی بہبود کے لئے مضمرات پر بھی دھیان دینا چاہئے۔ یوریشین اور عالمی دونوں سطحوں پر بڑھتی ہوئی امریکہ اور چین دشمنی اکیسویں صدی کی سب سے اہم سٹریٹجک ترقیاتی خصوصیت ہوگی جیسا کہ چین اقتصادی اور فوجی طاقت میں اضافہ کرے گا‘ یہ بین الاقوامی نظام کے لئے ایک سنگین چیلنج کا باعث بنے گا لہٰذا یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ مغربی طاقتیں اقوام متحدہ ورلڈ بینک جیسے عالمی اداروں میں اہم کردار ادا کرتی ہیں اور بین الاقوامی امن و سلامتی یا عالمی اقتصادی نظام سے متعلق کوئی بڑا فیصلہ ان کی رضامندی یا منظوری کے بغیر نہیں لیا جا سکتا چونکہ موجودہ دہائی کے اختتام سے قبل چین کی جی ڈی پی امریکہ کے مقابلے میں آئی ہے اور اس کے فوجی اخراجات مقررہ وقت میں امریکہ سے زیادہ ہیں‘ تو وہ اپنے مفادات کے لئے موجودہ بین الاقوامی نظام کے قوانین میں ترمیم کرنے کی کوشش کرے گا۔ چین اور امریکہ کے درمیان عالمی بالادستی کے لئے کشمکش کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔ یہ بڑھتی ہوئی بین الاقوامی کشیدگی‘ مقامی تنازعات‘ اتحادوں کی دوبارہ صف بندی کا باعث بنے گا کیونکہ ممالک سلامتی کے لئے اپنی جستجو میں انہیں ایک دوسرے کا تعاون چاہئے۔ حقیقی سیاست کا بڑھتا ہوا اثر‘ سلامتی کے بڑے مسائل سے نمٹنے میں اقوام متحدہ کی کم ہوتی اتھارٹی بالعموم خرابیوں کا مجموعہ ہے جبکہ چین امریکی دشمنی عالمی سطح پر رہے گی اور یوریشیا و بحرالکاہل کے علاقے اس کے اہم میدان ہوں گے۔ اِس پس منظر میں یوکرین پر روسی حملہ‘ جس نے روس کے نقطہ نظر سے اب تک ملے جلے نتائج حاصل کئے ہیں‘ خاص اہمیت کا حامل ہے۔ ایک طرف اس نے نیٹو کو مضبوط کیا ہے جیسا کہ سویڈن اور فن لینڈ کو اتحاد میں شامل کرنے کے تیز رفتار عمل سے ظاہر ہوتا ہے اور یورپ کے ساتھ امریکہ کے سٹریٹجک تعاون کو بھی بڑھایا ہے کیونکہ ایسا یورپی ممالک کے روس سے پیدا ہونے والے خطرے کے بارے میں بڑھتے ہوئے تصور کی وجہ سے ہے۔ دوسری طرف مغرب اور روس کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی نے ماسکو اور بیجنگ کو سٹریٹجک طور پر ایک دوسرے کے قریب کیا ہے جیسا کہ صدور پیوٹن اور شی جن پنگ نے کئی مواقع پر اس کی تصدیق کی ہے۔ رواں سال ستمبر میں سمرقند میں ہونے والی ایس سی اُو کے سربراہی اجلاس میں چین اور روس کے بڑھتے ہوئے سٹریٹجک تعاون کا اثر وسطی ایشیائی جمہوریہ میں امریکی سٹریٹجک اثر و رسوخ روکنے یا کم کرنے کا بھی ہو سکتا ہے۔ یوکرین پر روس کے حملے نے روس کی مسلح افواج کی کمزوریوں اور خامیوں کو اُجاگر کیا ہے کیونکہ مغرب کی طرف سے لاجسٹک حمایت یافتہ یوکرینی افواج کے ہاتھوں انہیں الٹا نقصان اٹھانا پڑا۔ یوکرین میں روسی حملے کے ملے جلے نتائج نے بھی کئی مقاصد کے حصول میں صرف فوجی طاقت کے استعمال کو بڑھایا ہے۔ اس کے بجائے جس چیز کی ضرورت ہے وہ قومی مقاصد کے حصول کے لئے قومی طاقت کے سیاسی‘ اقتصادی‘ فوجی اور سفارتی جہتوں پر مشتمل حکمت عملی کی ہے۔
پاکستان کے نقطہ نظر سے‘ چین کو روکنے کی امریکی پالیسی سب سے زیادہ نتیجہ خیز ہوگی۔ بالی میں صدر بائیڈن اور شی جن پنگ کی حالیہ ملاقات میں سرد جنگ کے بیانات کو ٹھنڈا کرنے کے باوجود‘ اس بات کا بہت زیادہ امکان نہیں کہ امریکہ مستقبل قریب میں اس پالیسی کو تبدیل کرے گا درحقیقت‘ اس پالیسی کی پیروی میں‘ امریکہ‘ جاپان‘ جنوبی کوریا‘ بھارت اور آسٹریلیا کے ساتھ اپنی سٹریٹجک شراکت داری کو مضبوط بنا رہا ہے، چین کے ارد گرد کواڈ اور AUKUS جیسے اتحادوں کا ایک سلسلہ موجود ہے اور یہ ممالک تائیوان کے ذریعے چین پر اپنا دباؤ بڑھا رہے ہیں۔ ہانگ کانگ اور سنکیانگ اور چین کی اقتصادی اور تکنیکی ترقی کو سست کرنے کے لئے منتخب بنیادوں پر اقتصادی پابندیاں لگانا بھی اِسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ بھارت کے ساتھ امریکہ کا تیزی سے بڑھتا ہوا تعاون خاص طور پر جنوبی ایشیا میں علاقائی توازن کو بھارت کے حق میں کرتے ہوئے پاکستان کی سلامتی کے لئے سنگین خطرہ ہے‘ جس سے پاکستان کے پاس اس رجحان کا مقابلہ کرنے کے لئے چین کے ساتھ قریبی تعلق کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا ہے۔ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی) کا اعلان پہلی بار سال دوہزارتیرہ میں صدر شی جن پنگ نے قازقستان کے دورے کے دوران کیا تھا۔ بنیادی طور پر اس کا مقصد یوریشین ممالک‘ مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے ساتھ چین کے اقتصادی اور تجارتی روابط کو فروغ دینا ہے جبکہ آبنائے ملاکا کو نظرانداز کرنا ہے۔ سنگاپور جو کہ امریکہ کا اتحادی ہے۔ بی آر آئی میں تجارتی راستوں کو ترقی دینے اور شریک ممالک میں اقتصادی منصوبے شروع کرنے کے لئے چین کی سرمایہ کاری بڑے پیمانے پر شامل ہے اس طرح ان کے ساتھ اقتصادی اور تجارتی روابط کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبہ‘ جس کا باضابطہ آغاز اپریل دوہزارپندرہ میں صدر شی جن پنگ کے دورہ پاکستان کے دوران باسٹھ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے ساتھ کیا گیا تھا۔ بی آر آئی کے اہم ترین اجزأ میں سے ایک ہے۔ تازہ ترین معلومات کے مطابق سی پیک کے تحت دوہزارپندرہ سے اب تک پچیس ارب ڈالر کے منصوبے مکمل یا شروع کئے جا چکے ہیں‘ اس طرح پاکستان کی اقتصادی ترقی کو تیز کرنے کے لئے چین ضروری سرمایہ کاری فراہم کر رہا ہے۔ یوریشیا میں اُبھرتی ہوئی حقیقتیں پاکستان کے پالیسی سازوں کے لئے سنگین چیلنجز ہیں۔ شاید ان میں سب سے اہم چین کے ساتھ ہمارے اہم سٹریٹجک‘ سیکورٹی اور اقتصادی روابط کو مضبوط بنانے اور امریکہ و یورپی ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات اور باہمی طور پر فائدہ مند تعاون کو برقرار رکھنے کے درمیان صحیح توازن کا قیام ہے۔ (مضمون نگار سابق سفیر ہیں۔ بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: جاوید حسین۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)